کیونکہ حال اور ماضی میں قرض مانگنے والوں نے تو یہ کبھی سوچاہی نہیں ہے اور کبھی اِن قرض مانگنے والوں کا اِس جانب دھیان ہی نہیں گیاہوگاکہ کوئی قرض دے کر مُلک اور قوم کے ساتھ کیا کرتاہے؟؟ اِن کی بلا سے کوئی کچھ بھی کرے؟ اِنہیں اِس سے کوئی غرض نہیں ہے، اِنہیں تو بس مُلک اور قوم اور اداروں کی ترقی اور خوشحالی کے نام پر قرض مانگنے اور اپنے اللے تللے کی پڑتی ہوتی ہے، کیا اِن قرض مانگنے والوں کو یہ معلوم نہیں کہ کل منہی آئی ایم ایف قرضے دینے کے بعد مُلکوں کی خودمختاری پر کیسے کیسے کاری ضرب لگاتی ہے؟؟اور ممالک کے اثاثوں اور خودمختاری اور اقوام کی غیرت اور عظمتوں کو قرضوں کے عوض کس طرح سودے کرکے اِنہیں اپنے پاس گروی رکھ لیتی ہے؟ بس اپنی ملکیت ظاہرنہیں کرتی ہے باقی مالکان حقوق والے وہ سارے کام کررہی ہوتی ہے جیسا کوئی مالک اپنی ملکیت سے لے رہاہوتاہے۔
آج کوئی کچھ بھی کہے ، اور سب کچھ جان کر بھی انجانا بنارہے مگر اِس بات سے تو کم ازکم مجھے انکار نہیں کہ ”آئی ایم ایف صرف قرضے نہیں، بلکہ مُلکی خود مختاری پر ضرب بھی لگاتی ہے“ جانتے تو سب ہی ہیں اور یہ بات سب کومعلوم بھی ہوگی اور اچھی طرح ذہن نشین بھی ہوگی مگر جب مُلکوں کے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور اداروں کے سربراہان اور بیوروکریٹس کو قرض لے کر مُلک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی کا نعرہ بلند کرنے اورجب کھوکھلے نعروں اور وعدوں کی بنیادوں پرہی اپنی خودنمائی کادم بھرنے کا نشہ سرچڑہ جائے تو پھر ایسے لوگ خود بخود ایسے عناصر کا رنگ و روپ دھارلیتے ہیں جن کا کام ہی قرض لے کر اپنا دال دلیہ چلانا رہ جاتاہے جب اِن کی یہ عادت بن جائے تو پھر ایسے عناصر یعنی کہ قرض خوروںکی قرضے مانگنے کی نشہ جیسی لت کون چھڑاسکتاہے؟۔
Shaukat Aziz
بہرکیف ، واشنگٹن سے یہ خبرآئی ہے کہ مُلک کے سابق وزیراعظم اور انٹرنیشنل ماہر معیشت دان شوکت عزیز نے اپنی کتاب ”بینکاری سے سیاست کی پُرخار دنیا تک “ کے اجراکے موقع پر امریکی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہاہے کہ”میں قوم پرست ہوں اورپاکستان ہمارامُلک ہے ، یہ دل ، جسم اور خون میں شامل ہے، سابق وزیراعظم شوکت عزیز کا ایک موقع پر یہ بھی کہنا تھاکہ”اِنہیں مختلف ممالک کی معیشت کی بحالی کے لئے کام کا اچھاتجربہ تھااور یہ بات اُس وقت کے صدر کو اچھی طرح سے پتہ تھی اِسی لئے اُنہوں نے مجھے مُلکی معیشت کی بہتری میں خدمات انجام دینے کا موقعہ دیااِس لحاظ سے وہ خود کو بڑاخوش نصیب کہتے ہیں اور فخریہ انداز سے اپنا سینہ ٹھونک کر اور گردن تان کر یہ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے بطوروزیراعظم اور ماہرمعیشت دان کی حیثیت سے مُلک کو معاشی اور اقتصادی بحران سے نکالنے میں اہم اور کلیدی کرداراداکیاتھا،شوکت عزیز کا کہناہے کہ اِنہیں معیشت دان کے حوالے سے وزیراعظم کی حیثیت سے مُلک کی خدمت کا موقع ملا”ورنہ نہ وہ کوئی زمیندارتھے نہ ہی بڑے بڑے لوگ اِن کے رشتے دارتھے اِن کا تعلق تو بس ایک متوسط طبقے سے تھا“۔
اگرچہ ، اتنی ساری باتوں کے بعد شوکت عزیز کی زبان سے اداہونے والا بس ایک یہ جملہ ”آئی ایم ایف صرف قرضے نہیں دیتی ، بلکہ مُلکی خودمختاری پر ضرب بھی لگاتی ہے“ اپنے اندر بڑی گہرائی اور معنی رکھتاہے جہاں اِس خبراور جملے نے بہت سوں کی آنکھیں کھول دی ہیں تو وہیں آج اُن لوگوں کے لئے بھی جو آئی ایم ایف کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں اوراِس کی قرضے دینے کی خاموش زہرجیسی سازش کے بچھائے ہوئے جال میں خود ہی پھنستے چلے رہے ہیںہمارے ایسے حکمرانوں، سیاستدانوں اور اداروں کے سربراہان کے لئے لمحہ فکریہ ہوناچاہئے جوکہ نہیں ہے۔
جبکہ یہاں یہ امر یقیناقابلِ ذکراور لائقِ صداحترام و تحسین ہے کہ سابق وزیراعظم اور معیشت دان شوکت عزیزنے اپنے اِسی انٹرویومیں برملااِس بات کابھی اظہارکیا ہے کہ ”اِن کے لئے زندگی کا سب سے زیادہ قابلِ فخرلمحہ وہ تھاکہ جب اُنہوں نے پارلیمنٹ کے فلورپر پاکستان کوآئی ایم ایف کے پروگرام سے علیحدہ کرنے کا اعلان کیا تھاکیونکہ بقول اُن کے” آئی ایم ایف صرف قرضے نہیں دیتی، بلکہ مُلکی خودمختاری پر ضرب بھی لگاتی ہے“یہ بات شوکت عزیز اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے کہ آئی ایم ایف قرضے دے کر مُلکوں اور اقوام کے ساتھ اندرونی اور بیرونی یعنی کہ ظاہری اور باطنی لحاظ سے معاشی اور اقتصادی ، سیاسی اور اخلاق طور کتنانقصان پہنچاتی ہے اِن کا کہناتھاکہ اِنہیں اِن سارے نقصانات سے بچانے اور پاکستانی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے ہی پاکستان بلایاگیاتھا،جو پہلے چاربرس تک توبطورِ وزیرخزانہ اپنی خدمات انجام دیتے رہے ، پھراِنہیں وزارت عظمی ٰ کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی تاکہ یہ مُلکی معیشت کو ٹھوس بنیادوں پر مستحکم کرسکیں سو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اِس میںکام اور اپنی ذمہ داریوں میں پوری طرح کامیاب ہوئے اِن کاکہناتھاکہ ”اِنہیں پتاتھاکہ آئی ایم ایف کے پروگرام سے علیحدگی پر ہمیں(پاکستان کو) اِس کی ناراضی کا سامناکرناپڑے گا،لیکن ہمیں اپنے قومی مفادکو ترجیح دینی تھی سوہم نے ایساکیا اور جب ہم نے آئی ایم ایف کے چُنگل سے نکلنے کا اعلان کیااور تمام ادائیگی کردی تووہ حیران رہ گئے اور اِن کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیںیوں ہم نے آئی ایم ایف سے نکلنے سے پہلے ہی اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو بتدریج بہتراور مستحکم کیاجس کے بعد ایک دن پارلیمنٹ کے اجلاس میں آئی ایم ایف کے پروگرام سے علیحدگی اختیارکرنے کا اعلان کردیاگیا“ ۔
IMF
اَب ایسے میں یہاں قصہ مختصر یہ کہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے اِس انٹرویو میں کہی گئیں اُن کی اِن ساری باتوں کے بعد کیا یہ سمجھاجائے کہ اُنہوں نے بطورماہر معیشت دان اور وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے سود پر قرضے دینے والے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے پروگرام سے علیحدگی اختیارکرکے آئی ایم ایف کے سینے میں مایوسیوں کی آگ بھڑکادی تھی اور مُلک کو اِس کے سازشی چُنگل سے نکال کراپنے پیروں پہ لاکھڑاکردیاتھا۔
مگر بڑے افسو س کے ساتھ یہ کہناپڑرہاہے کہ آج ایک مرتبہ پھرہمارے موجودہ خالصتاََ بزنس مائنڈ وزیراعظم میاں محمدنوازشریف اور ماضی کے مفاہمتی اور مصالحتی گھٹی کے ڈرم میں ڈوبے اور ہمیشہ پڑے رہنے والے سابق صدرآصف علی زرداری نے اپنی حکومتوں اور قوم کو آئی ایم ایف کے قرضوں کے بوجھ تلے دفن کرکے چلانے اور رینگنے کا موقعہ اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیااورشوکت عزیز کے ہاتھوں مُلک سے ماربھاگائی گئی آئی ایم ایف کے سامنے دامن پھیلاپھیلاکر، اپنے ہاتھ جوڑ جوڑکر اوراِس کے پاو ¿ں پڑپڑکراِسے پھر وطن واپس لے آئے اورپھر اِنہوں نے مُلک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی کا نام نہاد نعرہ بلندلگایااورآئی ایم ایف سے دیمک کی طرح چاٹ کھانے والے سود پر قرضے لئے اور اِن قرضوں سے اپنے اللے تللے کرتے رہے اور خاموشی سے اپنے اوراپنے خاندان والوں اور اپنے دوست احباب کے ناموں سے آف شورکمپنیاں بناتے رہے اورقوم کو آئی ایم ایف کا قرض اُتارنے کے لئے کولھوکا بیل بنا دیا ہے۔
یوں آج بیچاری پاکستانی قوم آئی ایم ایف کا قرض اُتارنے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے کہ قومی خزانہ بھر جائے تو مُلک اور قوم آئی ایم ایف کے قرضوں سے آزادہوجائے مگر شائد قوم کی یہ کوشش اور خواہش محض خواب ہی ثابت ہوں کیونکہ آج جنہیں سابق وزیراعظم اور معیشت دان شوکت عزیز کی طرح آئی ایم ایف کے پروگرام سے علیحدگی اختیارکرنی ہوناچاہئے تھی افسوس ہے کہ وہ مُلک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی کے نام پر آئی ایم ایف سے قرضے لینے کے لئے خوشی خوشی اِس کی گود میں بیٹھ کر قرضوں کی لولی پاپ چوس رہے ہیں اپنی عادت سے مجبوریہ لوگ خود تو مزے لے رہے مگر اِن لالچی اور جائز و ناجائز دولت پچاری حکمرانوں اور سیاستدانوں نے آئی ایم ایف جیسے مالیاتی ادارے سے سود پر قرضے لے لے کر مُلک کی بنیادوں کواندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ چاٹ کر کھوکھلا اور قوم کی کمر کی ہڈی کو خم دارکرکے رکھ دیتاہے اَب جس کے بعد مُلک اور قوم کسی کام کی نہیں رہ گئی ہے، آج بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں اور ہمارے مالیاتی اداروں کے سربراہان نے آئی ایم ایف سے دیدہ دانستہ طور پر دیمک نما سود پر قرضے لے کرپاکستانیوں کو پستی وگم نامی اور مسائل کی دلدل میں دھکیل دیاہے۔