تحریر : محمد اشفاق راجہ جن لوگوں کا یہ خیال تھا کہ وزیراعظم نواز شریف لندن میں زرداری کے ”دربار” پر حاضری دیں گے ان کی خواہش پوری نہیں ہوئی، لگتا ہے کہ جناب زرداری نے سینیٹ کے قائدحزب اختلاف چودھری اعتزاز احسن کا یہ سنہری مشورہ مان لیا ہے کہ وہ وزیراعظم سے ہرگز ملاقات نہ کریں، چنانچہ نہ دربار پر حاضری ہوئی اور نہ ملاقات، دونوں رہنما قریب قریب رہتے ہوئے بھی ملاقات کے لئے تیار نہ ہوئے البتہ جناب زرداری نے ٹیلی فون کرکے وزیراعظم کی خیریت ضرور دریافت کرلی تھی۔ جواچھی بات ہے۔ ایک اور گروپ کا خیال بھی درست ثابت نہیں ہوا جو یہ امید لگاکر بیٹھا تھا کہ نواز شریف اب واپس نہیں آئیں گے وہ واپس آنے کے لئے گئے ہی ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے تو اپنی روحانیت کی بنیاد پر یہ بھی معلوم کرلیا تھا کہ بیماری کا تو محض بہانہ ہے، وہ تو پانامالیکس کے معاملات درست کرنے گئے ہیں۔
ایک اور گروپ ایسا تھا جو مسلم لیگ (ن) کو مفت مشورہ دے رہا تھا کہ وہ اپنے اندر سے کسی اور کو وزیراعظم منتخب کرلے، کیونکہ وزیراعظم اب اگر آبھی جاتے ہیں تو صورت حال پر ان کا کنٹرول نہیں ہوگا، بعض اینکر جن کے خیال میں عالم بالا سے مضامین آتے ہیں یہ گولی بیچ رہے تھے کہ مسلم لیگ (ن) مائنس ون فارمولے پر متفق بھی ہوگئی ، پاناما کے نائب وزیر خزانہ آئیون زرک نے تو اپنے ساتھ وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی ملاقات بھی کرالی تھی جبکہ اسحاق ڈار ان دنوں پاکستان سے باہر گئے ہی نہیں، ہم نے سوچا ممکن ہے پاناما کا یہ وزیر بھی کوئی ”پانامالیک” کررہا ہو۔
لیکن بعد میں کھلا کہ موصوف کی ملاقات پاکستان کے سیکرٹری خزانہ وقار مسعود سے ہوئی تھی، چونکہ امریکہ سمیت بعض ملکوں میں ”وزیر” کو ”سیکرٹری” کہا جاتا ہے اس لئے انہوں نے سیکرٹری وقار مسعود کو وزیر سمجھ لیا اور پاکستان کے اندر یارلوگ کان دیکھے بغیر کتے کے پیچھے دوڑ پڑے کسی نے یہ معلوم کرنے کی کوشش ہی نہ کی کہ اسحاق ڈار تو پاکستان سے باہر گئے نہیں، پاناما کے وزیر سے ملاقات کیسے ہوگئی ، ہرکسی نے ہتھے چڑھی ہوئی خبر پر چھ چھ کالمی سرخیاں جما دیں اور، ساتھ ہی اسحاق ڈار کی جانب سے غیرنمایاں سی تردید کہ انہوں نے تو پاناما کے کسی وزیر سے ملاقات نہیں کی، لیکن یہ سرخی جمانے والوں کو اندر سے تسلی تھی کہ ہو نہ ہو اسحاق ڈار نے ملاقات ضرور کی ہے اب ”بدنامی” سے بچنے کے لئے تردیدیں کررہے ہیں یہ حقیقت تو چندر روز بعد کھلی کہ پاناما کے نائب وزیر کو وزیر اور سیکرٹری کے الفاظ نے گمراہ کیا۔
Ishaq Dar
اب انہوں نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے باقاعدہ معذرت کرلی ہے اور معذرتی تحریر وزارت خزانہ کو بھیج دی ہے۔تو خیر ہم بات کررہے تھے وزیراعظم نواز شریف کی، جن کی لندن روانگی کا بنیادی مقصد اپنا طبی معائنہ کرانا تھا جو کچھ عرصے سے ملتوی چلا آرہا تھا۔اسی وجہ سے انہوں نے اپنا دورہ ترکی ملتوی کیا۔ لندن میں جب ان سے سوال ہوا کہ وہ پاناما لیکس کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاملات درست کرنے آئے ہیں تو انہوں نے برجستہ جواب دیا تھا کہ پھر تو انہیں لندن نہیں، پاناما جانا چاہئے تھا ، اب وزیراعظم کئی لوگوں کی توقع سے بھی پہلے اور کئی دوسروں کی توقعات کے قطعی برعکس واپس آگئے ہیں تو پرانی کہانیاں نئی کہانیوں میں بدلیں گی۔
وزیراعظم نے لندن جانے سے پہلے جس کمیشن کا اعلان کیا تھا وہ تو اب تک نہیں بن سکا البتہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اس سلسلے میں درست سمت میں پیش رفت کررہی ہے اور وزیر قانون زاہد حامد نے منگل کے روز سپریم کورٹ بار کے صدر سید علی ظفر سے جو ملاقات کی ہے اس میں بات چیت مزید آگے بڑھی ہے اور امید ہے سپریم کورٹ بار جس طرح کی کمیٹی کی تشکیل چاہتی ہے اس میں اسے ضرور کامیابی حاصل ہو جائے گی البتہ عمران خان اس ضمن میں یکسو ہیں کہ جسٹس (ر) سرمد جلال عثمانی کی قیادت میں بننے والا کمیشن قبول نہیں اور جو کوئی بھی ایسے کسی کمیشن کے بارے میں قبولیت کی بات کرے گا اس کے متعلق ہم سمجھیں گے کہ اس نے قیمت وصول کرلی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجبور ہوکر ہم کوئی بھی قدم اٹھا سکتے ہیں لیکن ہمارا یہ خیال ہے کہ اب شاید وہ رائے ونڈ میں دھرنے کا خیال ترک کردیں کیونکہ لندن میں جمائما گولڈ سمتھ کے گھر کے باہر مسلم لیگیوں نے جو مظاہرہ کیا ہے اسے اچھا نہیں سمجھا گیا ، جن کا یہ خیال ہے کہ ایسے مظاہرے کی ضرورت نہ تھی ان کی رائے میں مظاہرہ وہاں ہونا چاہئے تھا جہاں عمران خان تھے۔
Imran Khan
لیکن سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ میں تو یہی کہا گیا تھا کہ جب یہ مظاہرہ جاری تھا تو عمران خان اپنے بچوں سے ملنے اسی گھر کے اندر موجود تھے تب تو مظاہرہ جائز ٹھہرا کہ یہ عمران خان کے خلاف ہورہا تھا مظاہرے کے بعد بچوں کی نانی نے یہ تو ضرور پوچھا ہوگا کہ مظاہرین کیا کہہ رہے ہیں معلوم نہیں انہیں کیا بتایا گیا، لیکن اگر یہ بتایا گیا ہوگا کہ عمران خان رائے ونڈ میں پاکستان کے وزیراعظم کے ذاتی گھر کے باہر مظاہرے (یا دھرنے) کا پروگرام رکھتے ہیں تو مسز گولڈ سمتھ نے یہ بات پسند نہیں کی ہوگی اور عمران خان کو شاید سمجھایا بھی ہوکہ پاکستان میں ان کی سیاست کا جواب انہیں لندن میں دیا جارہا ہے، یہ تو محض ایک خیال ہے ممکن ہے ایسی کوئی بات نہ ہوئی ہو لیکن زبانی طیورکی ایک خبر یہ ضرور پہنچی ہے کہ عمران خان کا رائے ونڈ دھرنے کا پروگرام ابھی حتمی نہیں ہے ہوسکتا ہے اب وہ اس کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوں یا پھر لندن کے مظاہرے نے انہیں دل برداشتہ کردیا ہو۔
وزیراعظم نواز شریف جب تقریباً ایک ہفتہ قبل لاہور سے لندن روانہ ہوئے تھے تو تصویروں سے محسوس ہوتا تھا کہ ان کو صحت کے مسائل درپیش ہیں، لیکن اس کے باوجود لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے تھے، کوئی کہہ رہا تھا کہ وہ زرداری کے دربار میں حاضری دینے گئے ہیں تو ساتھ یہ مشورے بھی سامنے آرہے تھے کہ میں نے زرداری کو کہہ دیا ہے کہ وزیراعظم سے ملاقات نہ کریں، ایک اطلاع یہ بھی آئی کہ زرداری نے شرط رکھی ہے کہ ملاقات تب ہوگی۔
جب وزیر داخلہ چودھری نثار بھی ملاقات میں موجود ہوں گے ،چودھری نثار علی خان لندن گئے ضرور ، لیکن ملاقات پھر بھی نہ ہوسکی، وہ جرمنی گئے اور اس کے بعد امریکہ چلے گئے، تاہم پتنگ باز سجناں ملک کے اندر اور باہر اپنی قیاس آرائیوں کی پتنگیں اڑاتے رہے، پانی وبجلی کے وزیر مملکت عابد شیرعلی نے کہا کہ عمران خان کو رائے ونڈ ضرور جانا چاہئے کہ یہ تبلیغ کا عالمی مرکز ہے ہوسکتا ہے اس سرزمین سے گزرتے ہوئے عمران خان کے دل کی دنیا بدل جائے اور وہ راہ راست پر آجائیں۔