نظیر اکبر آبادی بلاشبہ ایک زبردست شاعر ہیں مگر افسوس انہوں نے ایک ایسا زمانہ پایا جب کو ان کی شاعری کی جگہ لوگ غزل کی بھول بھلیوں میں گم ہو گئے تھے نظیر نے جس بے باکی اور دلیری سے اس دور کی زندگی کے مسائل کو بے نقاب کیا شاید اور لوگوں میں اس زندگی کے آشوب سے آنکھیں ملانے کی ہمت ختم ہو چکی تھی ایک زمانے تک ان کی شاعری کو پست سمجھا جاتا تھا مگر عوامی تحریکوں نے نظیر کو پھر سے زندہ کیا اور ان کا مقام اور مرتبہ تاریخ کے اوراق میں متعین کیانظیر کی ان نظموں میں زندگی اور زندہ دلی کا بے پایاں جذبہ ملتا ہے مگر ایسی نظموں کی بھی کمی نہیں ہے جن میں موت، فنا، زندگی کے ایثار ملتے ہیں ان کی بنجارا نامہ میں ایک ایسی ہی کیفیت کا عمل پیرا ہے۔
بنجارا نامہ کو آدمی نامہ کے نام سے بھی دیکھا جا سکتا ہے آدمی نامہ کے خونخوار وحشی اور تخریب کار انسان کی جبلتوں پر قابو پانے کے لئے فنا اور موت کے استعارے کو سامنے لے آتا ہے ہر دور کے آدمی کو اس کے انجام کی خبر دینے کے لئے استعمال کی گئی ہے یہ اس آدمی کی علامت ہے جو ہر طرح سے مرفہ الحال سے آسودہ ہے اور زندگی کو پورے اطمینان سے بسر کررہا ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ اس کے عقب میں کیا ہے یعنی وہ بے خبر ہے یہ بے خبری موت اور فنا کے استعاروں کو فراموش کر دینے میں ہے بنجارا نامہ ان ہی استعاروں کی بار بار یاد دلاتا ہے اور موت کے قطعی اور آخری انجام کو دکھا کر آدمی کو ہوا اور حرص کی جبلتوں میں توازن پیرا کر رہا ہے۔
موت اور فنا کے متعلق ساری دنیا جانتی ہے لیکن وقت کی حرص نے سب کی آنکھیں بند کر دیں ہیں کوئی بھی اس درد ناک حقیقت کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے حالانکہ یہ نظم ایک صدی پرانی ہے لیکن اس کی اہمیت آج بھی روشن ہے کیونکہ اس کا کردار آج بھی زندہ ہے اس وقت غیر ملکی حملے کی وجہ سے خون خرابے تھے لیکن آج ہماری آپس کے جھگڑے میں بھی بنجارا نامہ زندہ ہے اس میں انسان کو آخری مقدر یعنی موت کی یاددہانی کراتی ہے اس انسان کی جو دولت و جاہ کی لذت میں سرشار تھا بنجارے کی علامت اس کے آخری انجام کی خبر دیتا ہے۔
بنجارا انسان کی مادی ثقافت کی علامت ہییہ علامت ہر صدی میں ہمیں نظر آرہی ہے اور اس دنیا میں ایک تسلسل کے ساتھ موجود ہے بلکہ اب تو بنجارے کا کردار زیادہ توانا ہو گیا ہے بنجارا نامہ نظیر اکبر آبادی کی ایک نہایت ہی خوبصورت ، دلکش اور تمثیلی نظم ہے جو انسانی معاشرے کی ایک تصویر ہے اور جس میں انسانی زندگی کی خوبصورت عکاسی کرنے کے ساتھ اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان خواہ کتنی ہی دولت سمیٹ لے اور معاشرے میں کتنا ہی بلند مقام حاصل کر لے آخرکار اس کو یہ دنیا فانی چھوڑنی پڑے گی
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا
آجکل اس دور میںربھی سب کچھ دولت کو سمجھا جاتا ہے اور انسان کی قدر و عزت بھی اسی کی وجہ سے ہوتی ہے حالانکہ دولت ایک ایسا درخت ہے جس کی چھائوں نہیں ہوتی اس کے آنے جانے میں زیادہ دیر نہیں لگتی ہے لیکن ہم اس چیز کو سمجھنے سے قاصر ہیں کیونکہ ہم میں اتنی صلاحیت ہی نہیں ہے ہم باظاہر تو مسلمان ہیں حقوق اللہ کی پابندی کرتے ہیں مگر ہم انسانوں کے حقوق یعنی حقوق العباد بھول گئے ہیں ہم سب جانتے ہیں کہ ہم نے مرنا ہے لیکن ہم موت کو بھول گئے ہیں ہم میں انسانیت برائے نام ہے بھائی بھائی کو مار رہا ہے ہم اپنوں کے ہاتھوں سے محفوظ نہیں ہیں ہم میں کس چیز کا غرور ہے ہم ایک خون کے لوتھڑے سے بنائے گئے ہیں اور جب ہم مریں گے۔
یہ دولت ہمارے کسی کام نہیں آئے گی سوائے ہمارے صدقات اور خیرات کے جو ہم نے دھوکے سے کمائی ہو گی وہ سب ہمارے لئے عذاب بن جائے گی لیکن ہم اس وقت بے بس ہونگے کیونکہ ہمارے ہاتھ کچھ نہیں ہوگاسوائے بے بسی کے ہماری گاڑیاں ، فیکٹریاں سب مال و دولت ہم سے چھن جائے گا اور ہم بے سروسامانی ہوں گے تب ہمیں اس بات کا احساس ہو گا کہ ہم نے کس کے ساتھ کیا کیا اس لیے انسان کو اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ اس وقت رشوت نہیں چلتی اس وقت صرف اور صرف انصاف پر اور سچائی پر فیصلہ کیا جائے گا۔اب پچھتائے کیا ہوں جب چڑیاں چن گئی کھیت۔