تحریر: رقیہ غزل کسی بھی جمہوری معاشرے میں اگر اس کے ادارے آزادانہ حثیت سے کام نہ کریں تو معاشرے میں بگاڑپیدا ہو تے ہیں اور صرف ملکی نظام و نصرام ہی متاثر نہیں ہوتا بلکہ افراد معاشرہ میں بھی بے یقینی اور انتشار کا کینسر پھیل جاتا ہے ۔اورستم یہ ہے کہ پاکستان کے تمام ادارے ہمیشہ سے سیاسی اشرافیہ کے زیر تسلط چلے رہے ہیں اور اسی سبب پاکستان میں شفاف انتخابات کا مطالبہ ہمیشہ سے سرفہرست رہا ہے۔اور الیکشن کمیشن کی آزادی ہمیشہ سے سوالیہ نشان بنی چلی آ رہی ہے۔یہاں تک کہ الیکشن کمیشن کی غیر فعالی اس وقت ملک گیر تنازع کی صورت اختیار کر چکی ہے پہلے ڈھکے چھپے انداز میں اس کی شفافیت بارے بات کی جاتی تھی مگر اب سیاسی کشمکش نے اس سانجھے کی ہنڈیا کو بیچ چوراہے لا پھوڑا ہے اب بیرونی دنیا میں بھی ہمارے انتخابات کو متنازع سمجھا جا رہا ہے۔مذکورہ حالات میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آزاد اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن کا تقرر آج تک کیوں نہیں ہوسکااورریاست اور حکومت اس معاملے میں عملاً کوئی قابل قدر اقدامات کرنے سے تاحال قاصر کیوں ہے؟
ہمارے سیاسی نظام کا سنگین پہلو تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں شکست تسلیم کرنے کا کوئی رحجان ہی نہیں ہے ،یعنی میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھوتھو کے مصداق جیتنے والی جماعت کے لیے انتخابات شفا ف اور ہارنے والی جماعت کے لیے انتخابات دھاندلی زدہ ٹھہرتے ہیں ۔اور یہ روش قیام پاکستان سے لیکر تاحال جاری ہے ۔2013کے انتخابات کے بعد مولانا طاہر القادری اور عمران خان نے حکومت کے خلاف بقول انکے اس غیر منصفانہ اور کرپٹ نظام کے خلاف انقلاب و دھاندلی کا علم بلند کیا تھا ،جس میں آزاد الیکشن کمیشن کا تقرر بھی سر فہرست تھا جس میں مولانا طاہرالقادری تو تا وقتیکہ منظر سے غائب ہیں مگر عمران خان اپنے مئوقف پر قائم ہیں اور ان کو قوی امکان ہے کہ آزاد الیکشن کمیشن کا وہ معاہدہ جو میثاق جمہوریت کی شکل میں میاں نوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان ہوا تھا جس میں طے تھا کہ برسر اقتدار آکر اس ادارے کو آزاد اور شفاف بنائیں گے تاکہ شفاف جمہوری نظام کو آگے بڑھایا جا سکے اور جس معاہدے کو دونوں فریقین مفاہمت کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں اس پر عملدرآمد ہوگا ۔ ویسے دھاندلی کے بارے حکومت نے عمران خان کی شکایات دور کرنے کے لیے جوڈیشیل کمیشن مقرر کر کر دیا ہے جو کہ امید کی جا رہی ہے کہ شفاف انتخابات کی طرف راہ ہموار کرنے کے لیے اہم قدم ہوگا۔
اگر ہم پاکستانی سیاست کے ابواب کا عمیق نظری سے مطالعہ کریں تو یہ حقیقت ہم پر افشا ہوتی ہے کہ وطن عزیز میں 1970کے علاوہ جو بھی انتخابات ہوئے وہ سب کے سب متنازع تھے اور ان پر کئی حوالوں سے بات ہو سکتی ہے ۔ہم آغاز سے ہی مثال لے لیتے ہیں کہ محترمہ فاطمہ جناح ،ایوب خان کے مقابلے میں ہار گئی تھیں اگر یہ کہا جائے کہ انتخابات شفاف تھے تو کیاپاکستانی عوام’ قائد ملت کی بہن سے اتنی بھی محبت نہیں کرتے تھے کہ ان کو ووٹ ڈال سکتے ۔درحقیقت دیمک زدہ جمہوریت اور مفاد پرست جمہوری رویوں نے سیاسی نظام کا تانا بانا بگاڑ رکھا ہے ۔اور ستم تو یہ ہے کہ کوئی حکومت یا ریاست اس کے لیے عملاً قابل قدر کام نہیں کرتی بلکہ تمام عرصئہ اقتدار تمام اہم ریاستی اداروں پر اپنے حمایتی اور قرابت داروں کی تقرریاں کرنے اوران اداروں کو اپنے کنٹرول میں کرنے پر غوروفکر اور اقدامات کئے جاتے ہیں ۔انتخابات کے دوران اور الیکشن شیڈول آنے کے فوراً بعد ہنگامی بنیادوں پر مرکزی اور صوبائی حکومتیں براہ راست مداخلت کرتی ہیں ،جن میں اہم افسران کا تبادلہ و تقرری سے لیکر عدالتی نظام کو متنبع کرنے تک ہر ممکن اقدامات کئے جاتے ہیں ۔یہاں تک کے امیدواران کا چنائو بھی وفاداری کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور پھر جو لوگ آتے ہیں وہ اپنے ہی محسنوںکو جواب دہ ہوتے ہیں،انتخابی مہم کے دوران سر عام دھونس اور طاقت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ شاہراہوں پر سائین بورڈز پر انتخابی جماعتوں کے بینرز ،بورڈز اور ہورڈنگز اور ترقیاتی منصوبوں کا کھلے عام اعلان اور سیاسی ہٹ دھرمی اور اکھاڑ پچھاڑ کو جمہوریت کا حسن اور الیکشن کی گہما گہمی سمجھا جا تا ہے۔
Election
اس سارے عمل میں الیکشن کمیشن خاموش اور بے بس نظر آتا ہے ۔بلکہ اس کی تساہل پسندی اس حد تک پہنچی ہوئی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر بھی اکثر عملدرآمد کروانے میں قاصر نظر آتا ہے ۔یہ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ پاکستان کا سب سے اہم ادارہ ہی سیاسی اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے ایسے میں کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کا سورج طلوع ہوگا ۔جبکہ الیکشن کمیشن کے ضابطہء اخلاق میں یہ یہ واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ کوئی حکومتی فرد اپنے سرکاری وسائل اور اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرے گا اور اگر کرے گا تو سزا کا حقدار ٹھہرے گااس کے علاوہ کوئی سرکاری فرد انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکتا اور ترقیاتی کاموں اور منصوبوں کا اعلان بھی غیر قانونی ہوگا ۔یہاں تک کہ اگر ملک کا وزیر اعظم انتخابات میں سہولت کار کا کردار ادا کرے گا تو وہ بھی مجرم قرار پائے گااور اس کو الیکشن کمیشن اظہار وجوہ کا نوٹس بھی بھیج سکتا ہے اور اگر اس نوٹس کی وہ وضاحت نہ کر سکے تو وہ نا اہل قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ الزامات کرپشن کے زمرے میں آتے ہیں ۔اس قدر سنگین معاملات کا اطلاق کہیں پر بھی نظر نہیں آتا۔آپ موجودہ سینٹ الیکشن کی ہی مثال لے لیجئے اور اب کراچی میں این اے 246 کے ضمنی انتخابات میں جو کچھ ہو رہا ہے سب کے سامنے ہے۔
کڑوا سچ تو یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور پس پردہ قوتیں ،جو ہمیشہ سے ہمارے ملک پر اثر انداز رہی ہیں وہ ہی نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں انتخابات آزادانہ ،منصفانہ اور غیر جانبدارنہ ہو ں اور پاکستان کے تمام ادارے آزاد ہوں اور ملک میں ترقی و خوشحالی کا دور دورہ ہواورجہاں تک سوال عوام کا ہے وہ اپنے مفادات کی وجہ سے کسی نہ کسی طرح بر سر اقتدار طبقے کے آگے سر جھکانے پر مجبور ہیں کیونکہ رشوت اور سفارش کا کینسر تمام اداروں میں پھیل چکا ہے اور معززین کی فہرست میں بھی یہ سیاسی فنکار ہی آتے ہیں۔
مگر ۔۔آج مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جس تیزی سے شخصی آزادی بڑھ رہی ہے ۔اور لوگوں میں قانون اور انصاف کے معاملات کے متعلقہ آگاہی بڑھ رہی ہے ایسے میں توقع کی جاسکتی ہے کہ اب وہ وقت دور نہیں کہ عوام بالآخر شعوری انقلاب کے نتیجہ میں عملی مثبت تبدیلی کی طرف پیش رفعت کریں گے ۔جس سے رائج فرسودہ نظام ہائے بالآخر دم توڑ دیں گے اور جن آزادیوں کے حصول کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا اس کے ثمرات عوام کو میسر آسکیں گے اور یہ نوشتئہ دیوار ہے کہ آزاد اور فعال الیکشن کمیشن کا قیام ہی ملکی خوشحالی اور بقا کا ضامن ہے۔