کراچی (جیوڈیسک) سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں2رکنی بینچ نے متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں سمیت درجنوں شہریوں کی غیرقانونی حراست اور گمشدگی کے الزام میں پولیس کو رینجرز اہلکاروں کیخلاف شہریوں کے رشتے داروں کے بیانات قلمبند کرنے کی ہدایت کی ہے اور مزید کہاہے کہ اگربیانات قابل دست اندازی پولیس ہوں تومقدمات درج کرلیے جائیں۔
فاضل بینچ نے یہ ہدایات شہرکے مختلف علاقوں سے رینجرز اہلکاروںکے خلاف شہریوں کو غیرقانونی طورپر حراست میں لینے کے متعلق درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے جاری کیں۔ درخواست گزار محمد اقبال نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فریق بناتے ہوئے بینچ کو بتایاکہ اس کے 31سالہ بھائی محمدماجد کو27مارچ کو رہائش گاہ واقع جیکب لائن پرچھاپے کے دوران حراست میں لیاتھا تاہم ابھی تک اسے کسی عدالت میں پیش نہیں کیاگیا۔
بریگیڈ پولیس اسٹیشن رجوع کیااور درخواست کی کہ اس کے بھائی کولے جانے والے رینجرز اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیاجائے لیکن پولیس نے اس درخواست پرکوئی کارروائی نہیںکی۔
عدالت کی ہدایت پر ایڈیشنل ایس ایچ او محمدآصف پیش ہوئے اور یقینی دہانی کرائی کہ اگردرخواست گزار پولیس اسٹیشن آیاتو ضابطہ فوجداری کی دفعہ154کے تحت بیان قلمبند کرلیا جائے گااور قابل دست اندازی پولیس ہونے کی صورت میں مقدمہ بھی درج کرلیاجائیگا۔
فاضل بینچ نے پولیس کورپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 6اگست کیلیے ملتوی کردی۔ فاضل بینچ نے کراچی واٹراینڈ سیوریج بورڈ کے ایک اور ملازم کی گمشدگی سے متعلق درخواست پر ہوم ڈیپارٹمنٹ کو جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش کرنے کیلیے مہلت دیدی۔ مسمات شائستہ ریاض نے درخواست میں بینچ کوبتایا تھاکہ اس کے رشتے دار شہزادخان کو رینجرزاہلکاروں نے 15 جنوری کواورنگی ٹائون سیکٹر سے 1A حراست میں لیاتھا لیکن کسی عدالت میں پیش نہیں کیا۔