تحریر : حفیظ خٹک 23 مارچ 1940 کا دن ہی دن تھا کہ جب لاہور میں قرار داد پاکستان پیش ہونے کے بعد منظور کی گئی اور اس کے بعد برصغیر کے مسلمانوں نے انتھک محنت کے ذریعے صرف 7 برسوں میں وطن عزیز پاکستان کو حاصل کیا۔ بظاہر بہت ا?سان سا جملہ تھا جسے لکھ کر بااسانی پڑھا جا سکتا ہے اور لکھاری کی بات کو سمجھا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ سات برس کس طرح سے گذرے ، کیا کیا قربانیاں دیں گئیں، کیوں کر اور کس انداز میں جتن کرکے دنیائے تاریخ میں نظریئے کی بنیاد پر ملک حاصل کی گیا۔ اسلام کے نام پر بننے والے ملک کیلئے قربانیاں جس انداز میں دی گئیں تاریخ میں اس کی کوئی روداد نہیں میسر۔بس گہرے احساس کے ساتھ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔
وطن عزیز کی تاریخ میں جس طرح یوم قرار داد پاکستان کو اس سال منایا گیا اس کی بھی کوئی نظیر نہیں ملتی۔20کڑور سے زائد ا?بادی کے اس دیس میں ہر شہری اپنی ذات میں اک پاکستانیت پیش کر رہاتھا۔ دشمنان دین وطن کو ہر محب وطن کو دیکھنے ، سننے کے بعد اس بات کا احساس ضرور ہوگیا ہوگا کہ اب یہ وہ پاکستان نہیں ہے کہ جس پراور جس میں ماضی میں سازشی منصوبے کامیابی کے ساتھ کارگر ثابت ہوتے تھے۔ اب ہر باشندہ اپنی ذات میں ایک فوجی کی مجاہد کی طرح ہے۔ صدر پاکستان سے لے اس ملک کی حکومت کی اک عام ذمہ فرد تک ہر فرد نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا ہے اور اسی احساس کے بل بوتے پر پاکستان دنیا میں اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کیلئے سینہ تھان کر کھڑا ہوگیا ہے۔ سی پیک کا تجارتی منصوبہ ہو یا بلوچستان کا ہر باشندہ ، خیبر پحتونخواہ کا ہر فرد ہو یا گلگت ، سندہ و پنجاب و کشمیر کا بچہ ، غرض ہر جوان ملک کیلئے شعوری طور پر ہوش میں ا?چکا ہے اور یہ نوشتہ دیوار ہے ان تمام پاکستان دشمنوں کیلئے جو پاکستان کو ختم کرکے اکھنڈ بھارت کا اب تلک کواب دیکھ رہے ہیں۔ کرکٹ اور عالمی کرکٹ کی بحالی کی جانب اک کامیاب سفر کا ا?غاز ہو تجاری ، تمدنی صورتحال ، ہر موڑ پر ہر محب وطن سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ سینے میں رکھے زبان پہ لائے کھڑا ہوگیا ہے۔ اندرونی و بیرونی سازشیں اب انہدام کی جانب گامزن ہیں۔ نام نہاد تحریکیں بھی اپنے برے انجام کو پہنچ رہی ہیں اور جو نہیں پہنچی ہیں وہ جلد پہنچ جائیں گی۔ دشمنان وطن کو یہ دیکھ لینا چاہئے کہ جب امریکہ کا سفیر وطن عزیز زندہ باد کا نعرہ مینار پاکستان کے سامنے کھڑا ہوکر لگاتاہے اور اس کے ساتھ ہی دنیائے کرکٹ کے بے تاج بادشاہ سر ویون رچرڈ بھی پاکستان میں ا?تے ہیں پی ایس ایل میں کوئٹہ ٹیم کی نمائندگی و رہنمائی کرتے ہیں اور پھر فائنل دیکھنے کیلئے کراچی ا?جاتے ہیں۔پاکستان زندہ باد ، پاکستان پائندہ باد کا نعرہ ہے کہ جو یوم پاکستان کے دن ہر ذرائع ابلاغ کے ساتھ ہر فرد کی زبان پہ ہے۔
شہر قائد میں اک فرد جو اپنی زندگی کے 35برس پودوں کو لگانے میں گذارتا ہے، اک نجی محفل میں وہ یہ کہتا ہے کہ جہاں سے بھی گذرتا ہوں مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ پودے مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ا?پ ہی تو ہمارے خالق ہو ، ا?پ نے ہی تو ہمارا بیج بویا ، پانی دیا ، کھاد بھی دی اور پال پوس کر جوان کر دیا۔ اس شہری کا یہ کہنا ہے کہ یہ احساس ، یہ جذبات میرے کوئی سمجھ نہیں سکتا ہے۔ اس فرد کی یہ بات یہاں مفصل انداز میں لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ اس وقت وطن عزیز جس بین الاقوامی سازشوں کو جھیلتا ہوا ، اندورنی و بیرونی دشمنان سے نبردا?زما ہوتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے وہ سب حالات وواقعات وہ ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ جو اپنے دلوں میں احساسات رکھتے ہیں۔
وطن عزیز میں ایسے بہت سارے ہیں کہ جو مظلوم رہے ہیں۔ جن کے پانے مظلوموں کی طرح زندگی کو گذراتے ہوئے ا?گے کیجانب بڑھ رہے ہیں۔ ان میں جہاں برسوں سے امریکہ میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہیں وہیں پہ برسوں سے لاپتہ شریک سفر کو ڈھنونڈنے والی امنہ مسعود جنجوعہ بھی ہیں۔ قصور کی زینب کے رنجیدہ والدین ہیں تو انہی کی طرح رخسانہ ، شمائلہ و دیگر بہت ساری مظلوم خواتین بھی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمان ہیں تو ان کے ساتھ ہیں عالمی سطح پر پاکستان کی جانب سے مدد کی راہیں دیکھنے والی دیگر قومیں و ممالک بھی ہیں۔ ان کے دکھوں کو ختم کرنے کیلئے پاکستان کو اب ا?گے بڑھنا ہوگا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی طرح ، سپہ سالار اور اس کے ہر فوجی کی طرح ہر سیاسی سماجی ، مذہبی جماعت کے ہر رکن کو اب جاگنا ہوگا۔ اپنی ذمہ داری کو اپنی ذمہ دارانہ کاکردگی کو ا?گے بڑھانا ہوگا۔
دوسرے لفظوں میں اس یوم قرار داد پاکستان کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک اور تحریک کا ا?غاز کرنا ہوگا۔ یہ تحریک جہاں قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی باعزت رہائی اور واپسی کی تحریک ہوگی وہیں پہ کشمیر کے مسلمانوں کو ا?زادی دلانے اور پاکستان کا حصہ بانے کی بھی تحریک ہوگی۔ برما، شام اور دیگر وہ تمام ممالک کہ جہاں مسلمان زیر عتاب ہیں انہیں مظالم سے نجات دلانے کیلئے ا?واز اٹھانے سمیت عملی اقدامات کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس نئی تحریک میں ویسے ہی جذبے کی ضرورت ہے کہ جس انداز میں جذبہ و جذبات ا?ج سے 78برس قبل تھے۔ جب صرف سات برسوں میں وطن کو حاصل کرلیا تو اب وہی قوم اس سے بھی کم وقت میں نہ صرف قرار داد عافیہ رہائی کو کامیاب کرئے گی بلکہ اس کے ساتھ امنہ مسعود جنجوعہ کو بھی اپنی زندگی کا ہمسفر واپس دلوائے گی۔اس ملک عافیہ رہائی تحریک کی صورت میں اک نئی جہت کی سانس ا?ئے گی اور پاکستان تحریک ا?زادی کی طرز پہ اس عافیہ رہائی -تحریک کو یہاں کی عوام سمیت پوری دنیا کی عوام کامیابی تک پہنچائیگی۔
قوم کی بیٹی کی ماں عصمت صدیقی ، اس کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی جو اک مدت سے اپنی ہی نہیں قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے جہد مسلسل کررہے ہیں۔ جن سے سابق نااہل وزیر اعظم نے وعدہ بھی کیا لیکن وہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔ اک دستخط کی ضرورت تھی جو کسی حکمران نے نہیں کئے اور ایک خط کی ضرورت تھی جو کہ اب تک نہیں لکھا گیا۔ اس تمام تر صورتحال کے باوجود وہ کھلے ا?سمان کی جانب دیکھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ جس طرح پاکستان جہد مسلسل کے نتیجے میں بنا اسی طرح اک روز ایسی ہی کسی عوامی تحریک کی صورت میں عافیہ بھی کامیابی کے ساتھ واپس ا?ئے گی اور وطن ا?نے کے بعدوہ پاکستان کو بہت ا?گے پہنچانے شہدائ کے حوابوں کو پورا کرنے کے ساتھ قیام پاکستان کے مقاصد کو بھی پورا کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرئے گی۔