لاہور (جیوڈیسک) وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ تحفظ حقوق نسواں بل پر اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے بھی تجاویز پیش کی گئی ہیں جب کہ اس کے 2 نکات پر علمائے کرام سے اتفاق ہوگیا ہے لہٰذا جن معاملات پر اسمبلی سےترمیم کی ضرورت ہوگی وہ ضرور کرائی جائے گی۔
لاہور میں علمائے کرام سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا کہ ہم قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون بنانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے، تحفظ حقوق نسواں بل پر اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے بھی تجاویز پیش کی گئی ہیں جب کہ اس کے 2 نکات پر علمائے کرام سے اتفاق ہوگیا ہے اور علمائے کرام کی جانب سے جو تجاویز پیش کی گئیں اس سے متعلق کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی جب کہ جن معاملات پر اسمبلی سےترمیم کی ضرورت ہوگی وہ ضرور کرائی جائے گی۔
راناثنااللہ نے کہا کہ پولیس کی مدد سے بل پر عمل درآمد نہیں کراناچاہتے، پروٹیکشن آفیسرز کے ذریعے بل پرعمل درآمد کرایاجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ علماء کسی بھی صورت میں خواتین پر تشدد کے قائل نہیں، عورت پر تشدد کرنے والے مرد کو گھر سے نکالنے کے بجائے اس کی جانب سے یقین دہانی لینے پر اتفاق ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بل کے تحت مصالحتی کمیٹیاں ضلعی سطح پر بنیں گی، لڑکی کی طرف سےشکایت موصول ہوتوخاندان کےافراد صلح کی کوشش کریں گے، صلح کی کوشش قرآن و سنت کی روشنی میں کی جائے گی جب کہ مرد کو اہلیہ پر تشدد نہ کرنے کی ضمانت دینا ہوگی۔
صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ تحفظ حقوق نسواں بل میں ٹریکرکے معاملے کو غلط انداز میں پیش کیا گیا، علمائے کرام کی رائے ہے کہ کڑا لگانے کی وضاحت بل میں ناکافی ہے، کڑا ان لوگوں کو لگایا جائے گا جو خواتین کا تعاقب کرتے ہیں، تحفظ حقوق نسواں بل کے تحت گھر کے کسی فرد کو کڑا نہیں لگایا جائے گا بلکہ یہ کڑا زیادتی اور قتل کی کوشش کرنے والوں کو لگایا جائے گا۔