ہمیں اُس روش سے نکلنا ہے جس میں محب وطن لیڈر شپ پر منفی تنقید کا پہلو نمایاں ہوتا جارہا ہے ایک ایسے وقت میں یہ روش ترک کرنے کی ضرورت ہے جب قدم قدم پر پاکستانیت کی اکائی کو توڑنے کی مذموم کاوشیں عروج پکڑ رہی ہیں طاہر القادری کے پیرو کاروں نے اُنہیں دیوتا کے جس درجہ پر فائز کر رکھا ہے میں اُس کا ذکر کسی اور کالم کیلئے بچا کر رکھنا چاہتا ہوں ایسے پیروکار جو دم تو اپنے ایک ایسے قائد سے وابستگی کا بھرتے ہیں جس کا جادو مسلم لیگ ن کی قیادت کے خلافسر چڑھ کر بول رہا ہے مگر پیروکار منافقت کی ان انتہائوں پر ہیں کہ مسلم لیگ ن کی دیہی صدارتوں تک کے عہدوں کیلئے عام فرد سے سبقت چاہتے ہیں۔
اپنے قائد کے نظریات کے گلے پر چھری پھیرتے ہوئے ہر عوامی فورم پر مسلم لیگ ن کی جنگ لڑتے نظر آتے ہیں کنٹینر میں بیٹھ کر پی پی کی حکومت سے وی آئی پی ”مذاق رات ”کرنے والے قائد کے عام ورکروں کا یہ المیہ نہیں کہ وہ برسرِ اقتدار پارٹی مسلم لیگ ن کی جنگ لڑتے ہیں بلکہ مفادات کے دستر خوان پر عوامی تحریک کے عہدیدار وں کی بھی رال ٹپکتی نظر آتی ہے ایک پریس میٹنگ میں پنجاب کے ایک عہدیدار سے میرے سوالات کا پس منظر یہی تھا جس نے اپنی جماعت کے مقدمے کا دفاع کرنے کی بھر پور کوشش کی سیاست میں مثبت تنقید سنناسیاست کے اصولوں کی غمازی ہے کہ مستقبل میں ہونے والی غلطیوں کا ازالہ یہ تنقید سننے سے ہی ممکن ہوتا ہے۔
غلطیاں تجربہ ہوتی ہیں اور تجربہ انسان کا اُستاد کہلاتا ہے مگر آپ کسی تحریکئے سے مل لیں ڈاکٹر طاہرالقادری کی کسی غلطی پرہرزہ سرائی کرنے کی ہمت کر کے دیکھ لیں وہ آسمان سر پر اُٹھا لے گا تنقید سننے کا حوصلہ آپ کسی بھی طاہرالقادری کے پیروکار میں نہیں پائیں گے برداشت اُنہیں چھو کر نہیں گزری اسے آپ اندھی عقیدت کا شاخسانہ کہہ سکتے ہی۔
Imran Khan
ں درآمدی لیڈروں کے ساتھ جڑی اس اندھی عقیدت نے ہی قیادت کے تصور کا تیا پانچہ کرکے رکھ دیا اب میں اصل مقصد کی طرف آتا ہوں ان عقیدت مندوں کا یہ واویلہ میں اکثر محفلوں میں سنتا ہوں کہ عمران خان کو ڈاکٹر صاحب کا ساتھ دینا چاہیئے تھا مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جس قائد کی بغل میں ایسے افراد کھڑے ہوں جن کے دامن بے گناہ انسانیت کے خون سے تار تار ہیں عمران خان وہاں شاید کھڑا نہ ہو سکتا اور اگر عمران خان الیکشن کا بائیکاٹ کر دیتا تو دھاندلی کبھی بھی عیاں نہ ہوتی کیونکہ دونوں بڑی پارٹیوں نے اندر خانے بندر بانٹ کر کے نشستیں لے لینا تھیں اور اس بندر بانٹ میں دھاندلی پس منظر میں چلی جاتی دوسری اہم بات جوبحث طلب ہے وہ یہ کہ اگر عمران خان قائد انقلاب کے شانہ بشانہ کھڑا ہو جاتا تو مارشل لاء آجاتا جس کا اعتراف شاکر مزاری نے بھی کیا کہ ہم نے اسلام آباد کے احتجاج کو محض اس لیئے ختم کیا کہ اگر ہمارے شو آف پاور کی آڑ میں فوج آئی تو الزام ہمی پر آئے گا اس الزام کی نفی کی خاطر ہم نے دھرنا ختم کیا قائد کا ایک عام ورکر اندھی عقیدت کے زعم میں یہ بات ماننے کو تیار نہیں یہ عقیدت کے مارے ایک تصور یہ لیکر بیٹھ جاتے ہیں کہ خیبر پختونخواہ میں عمران کی حکومت ناکام ہو جائے گی اور یہ ٹسٹ کیس ہے۔
عمران جس روش پر چلا ہے اُس پر کوئی بھی نہیں چلا کرپشن پر وہ اپنے وزراء کو فارغ کر رہا ہے مانسہرہ میں ایک ایماندار پولیس آفیسر جو شیر پائو کے وزیر کو کرپشن اور من مانی نہیں کرنے دے رہا تھا کا جب تبادلہ ہوا تو عمران نے عوام کے احتجاج پر تحقیق کے بعد اُسے فارغ کردیا ڈیزل کے پرمٹ لیکر اسلام کے ٹھیکیداروں نے بھی اُس صوبہ پر حکمرانی کی مگر کرپشن پر کسی وزیر کو فارغ کرنے کی ہمت نہ ہوئی آج اگر عمران خان کے خلاف مولانا ڈیزل کے پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں تو محض اس لیئے کہ عمران وہ کچھ کیوں کر رہا ہے جو ہم نہیں کر سکے شاید وہ اپنے تاریک سیاسی مستقبل سے خوفزدہ ہے یہ بات قابل تردید ہے مگر مان بھی لی جائے کہ خیبر پختون خواہ میں عمران کو دانستہ حکمرانی کا ٹاسک دیا گیا تاکہ وہ فیل ہو جائے۔
اس ضمن میں مثال اے این پی اور جمیعت علما اسلام ف کی دی جاتی ہے کہ مذکورہ دونوں جماعتیں اکثریت کے باوجود حکمرانی کے معیار پر پورا نہ اُتریں اور فیل ہوئیں آنے والے عام انتخابات میں عوام نے اُنہیں مسترد کردیا اور تحریک انصاف سے اُمیدیں وابستہ کر لیں اور اُسے اکثریت دلوائی اب تحریک انصاف بھی فیل ہورہی ہے یہ من گھڑت منطق طاہرالقادری کے حواریوں سے لیکر مولانا ڈیزل ،اے این پی ،ن لیگی حواریوں کے ذہن میںخناس کی طرح سمائی ہوئی ہے اے این پی اور جمیعت علما اسلام ف کے بارے میں یہ موقف جھٹلانا ممکن نہیں کہ ان کا ووٹ بنک صرف خیبر پختون خواہ تک محدود تھا جبکہ عمران خان کا ووٹ بنک ملک بھر میں موجود ہے دوسرا ان دونوں جماعتوں کی لیڈر شپ نے عوامی رائے کا قتل یوں کیا کہ عوام کی سیاست کرنے کے بجائے اقتدار کی سیاست کو فروغ دیا اور مولانا ڈیزل کا تو یہ المیہ رہا ہے کہ جس کی حکومت بھی ہو ”میری دکان بند نہیں ہونی چاہیئے ”محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت سے لیکر نوازشریف، مشرف تک ذاتی مفادات کے چولہے پر اقتدار کی ہنڈیا چڑھی رہی۔
آج جب عمران خان عوام کے موقف کو لیکر چلا ہے تو حکومتی پرویز وں نے آسمان سر پر اُٹھا لیا ہے جیسے وہ پاکستانی حکومت کے نہیں امریکی حکومت کے وزیر اطلاعات ہوں حالانکہ سیاست کے سٹیجوں پر اُن کے شریف بگ باس ہر جلسہ میں عوام سے ”ڈرون مارگرائو”پالیسی کا راگ الاپتے رہے پاکستان اور افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی مندوب جیمز ڈوینز نے یہ باور کرادیا ہے کہ پاکستانی حکومت نیٹو کے سازو سامان کی افغانستان تک سپلائی کو یقینی بنائے گی اور امریکہ کا پاکستان سے نیٹو کی سپلائی جاری رکھنے کیلئے ایک معاہدہ پہلے سے ہی موجود ہے اس کے باوجود ڈرون حملے جاری و ساری رہیں گے اور پالیسی اب بھی وہی ہے جس کا اظہار وزیر خارجہ جان کیری نیپاکستان میں کیا تھا عالمی مالیاتی اداروں سے بھیک اور خیرات لیکر محرومی اور غربت کا پرچار کیا جا رہا ہے۔