تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا دنیا بھر میں سوشل میڈیا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ سوشل میڈیا میں بھی جو اہمیت فیس بک کو حاصل ہوگئی ہے شاید کسی اور کے نصیب میں نہ ہو۔ کبھی فیس بک کے صارفین تعلیم یافتہ افراد ہوتے تھے اور ان میں سے بیشتر رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کی طاقت رکھتے ہیں، مگر وہ منفی سرگرمیوں میں بہت زیادہ مصروف رہتے ہیں اور نہ صرف اس طاقتور پلیٹ فارم کا غلط استعمال کرتے ہیں بلکہ وہ معاشرے میں بھی کوئی اچھائی نہیں پھیلا رہے۔ اب تو بچے بزرگ ، جوان ، استاد، طالب علم غرض ہر شعبہ زندی سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا ( فیس بک اور وٹس اپ) سے جڑے نظر آتے ہیں ۔دیگر مکتبہ فکر کی طرح صحافی برادری اور سیاست دان جن کا تعلق مقامی طور پر ہیں وہ سوشل میڈیا کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں ، ہمارے کچھ دوست ہیں جن کے درجنوں کے حساب سے وٹس اپ گروپ ہیں ۔ پرنٹنگ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے اتنے قوائدو ضابط نہیں دیکھے جتنے ان سوشل میڈیا گروپس میں دیکھے گئے ہیں ، عقل سلیم جواب دے جاتی ہے کہ انتی مصروفیات کے باوجود گروپس میں ایڈ کرنے والے کو ویل کم کیا جاتا ہے ساتھ حکمانہ انداز میں ارشاد کیا جاتا ہے کہ فلاح شخصیت گروپ میں شامل ہو گئی ہے اس کو ویلکم کیا جائے۔ اگر کچھ دیر تک فارغ التحصیل ممبران نئے گروپ میں شامل ہونے والے کو خوش آمدید نہیں کہتے تو پرائیویٹ پیغام آتا ہے کہ گروپ میں فلاح نئے ممبر کو اچھی طرحwelcome کیا جائے۔ اسی طرح بات ہو رہی ہے سوشل میڈیا کی تو فیس بک کے شیدائیوں نے بھی وٹس اپ کی طرح بہت سارے گروپس بنا رکھے ہیں ، اور اسار کیا جاتا ہے کہ میری فلاح پوسٹ کو LIKE کرو œŸ ! ’ œŽ¢ ¢Ž shareکرو ۔نہ جانے یہ احساس کمتری کب ختم ہو جائے۔
صحافت سے منسلک لوگوں کے لئے ” سوشل میڈیا ” ایک نعمت ہیں مگر افسوس کچھ لوگ جن کا صحافت سے کوئی بھی تعلق نہیں وہ بھی اپنی دکانداری چمکانے کے لئے سوشل میڈیا کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں ، کسی بھی خبر کو کسی گروپ سے کاپی کیا اور دوسرے گروپس میں ڈال دیا۔ اسی طرح مختلف تصاویرات کو مختلف گروپس میں اپ لوڈ کیا جاتا ہے تا کہ ثابت ہو کہ متحرک صحافی ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو حقیقی معنوں میں صحافت کر رہے ہیں اور اپنے اپنے اخبارات کی کٹنگ یا ٹی وی کی سکرین شوٹ سے پتا چل جاتا ہے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں ان کو اہمیت حاصل ہیں ، لیکن پھر بھی ایک ایک آدمی کو درجن درجن گروپس بنانے کی کیا ضرورت ہیں یہ میری سمجھ سے باہر ہے۔ طاقتور سوشل میڈیا کا غلط استعمال انتشار کا سبب بنتا ہے کیونکہ فرضی اکاؤنٹس کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔
متعدد معروف شخصیات، حکومتی عہدیداران، سیاستدان اور یہاں تک کہ ججز نے فیس بک اکاؤنٹس ہونے کی تردید کی ہے مگر ان کے نام کی آئی ڈیز سماجی رابطے کی اس ویب سائٹ پر موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ قابل اعتراض مواد سامنے آنے کے بعد بیشتر شخصیات کو اپنی صفائی پیش کرنا پڑ جاتی ہے۔
دیگر افراد کی ٹائم لائن پر تصاویر ٹیگ کرنا ایک اور سنجیدہ معاملہ ہے کیونکہ کئی بار کوئی صارف قابل نفرت فوٹوز اور مواد دیگر شخص کی مرضی کے بغیر ٹیگ کردیتا ہے۔وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ حکومت سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن مادرپدر آزاد سوشل میڈیا بھی کسی طور پر قابل قبول نہیں ہے۔
منگل کے روز پنجاب ہاؤس میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ گذشتہ چند روز سے فوج کے خلاف تضحیک آمیز مواد سوشل میڈیا پر شائع کیا جارہا تھا جس کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کے حکام کو ذمہ داری سونپی گئی تھی۔اُنھوں نے کہا کہ ایف آئی اے کے حکام نے28 ایسے اکاؤنٹس کا سراغ لگایا جنہوں نے فوج کے خلاف تضحیک آمیز مواد شائع کیا تھا۔
چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ ان اکاؤنٹس سے متعلق ایسے افراد کو محض پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا گیا تھا جبکہ ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی لیکن اس پر شور شرابہ شروع ہو گیا۔ اُنھوں نے کسی بھی سیاست دان کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ ‘سوثل میڈیا کے مامے چاچے بننے کی کوشش نہ کریں۔’واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سوشل میڈیا پر پاندی لگنے کی صورت میں سڑکوں پر احتجاج کرنے کی دھمکی دی تھی۔وزیر داخلہ کا کہنا ہے جب سے ایف آئی اے نے ایسے افراد کو پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا ہے اس کے بعد سے فوج کے خلاف تضحیک آمیز مواد سوشل میڈیا سے غائب ہوگیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اس سے پہلے توہین مذہب سے متعلق جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کریک ڈاؤن شروع کیا تھا تو اس کے بعد سے مقدس ہستیوں کے خلاف تضحیک آمیز مواد بلکل ختم ہو گیا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ ملکی آئین کے تحت عدلیہ اور فوج کو کسی بھی صورت میں تضحیک کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو ایف آئی اے نے پوچھ گچھ کے لیے بلایا تھا تو اُنھیں اپنا وکیل ساتھ لانے کو بھی کہا گیا تھا اور کسی بھی فرد کے ساتھ ناروا سلوک نہیں کیا گیا۔عمران خان نے سوشل میڈیا پر پاندی لگنے کی صورت میں سڑکوں پر احتجاج کرنے کی دھمکی دی تھی اُنھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کو ایک طریقہ کار کے تحت چلنا ہوگا۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ حکومت کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ اس ضمن میں پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیکر اور ان کی رائے کو شامل کرکے سوشل میڈیا سے متعلق کوئی پالیسی بنائے۔ چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر قابل اعتراض مواد شائع کرنے والے افراد کا تو پتہ چلایا جا سکتا ہے لیکن بیرون ممالک سے ایسا کرنے والے افراد کے بارے میں معلومات سروس فراہم کرنے والے ادارے ہی دے سکتے ہیں۔
غیرمصدقہ اور غیر مستند قرآنی آیات اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شیئر کرنا بہت عام ہے اور لوگ انہیں ڈاؤن لوڈ کرکے ان کے پرنٹ نکال کر استعمال بھی کرتے ہیں مگر کوئی بھی اس چیز کی زحمت نہیں کرتا ہے کہ اس کی تصدیق کسی مذہبی عالم سے کرالے۔بحثیت قوم ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ سوشل میڈیا کا استعمال منفی نہیں مثبت کرنا ہے ۔ اگر ہم ایسا نہ کر سکے تو آنے والی نسلیں اخلاقی طور پرتباہ و بربادہو جائیں گئی، مقدس رشتوں کا بھرم ٹوٹ جائے گا، بڑھتے ہوئے سوشل میڈیا کے اثروسوخ کا سب سے زیادہ نقصان قوم کے معماروں ( طالب علموں ) کا ہوگا۔ اچھا پاکستانی اور اچھا مسلمان ملک و قوم کو دینے کے لئے والدین کو ” سوشل میڈیا سے اولاد کو دور رکھنا ہو گا۔