ایک قول ہے کہ ”یہ دنیا بہادر لوگوں کی ہے آگے بڑھیں اور اپنی مثبت سوچ سے اسے فتح کریں”۔اسی لئے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وہی قومیں ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوتی ہیںجن کی سوچ مثبت ہوتی ہے۔منفی سوچ کی حامل قومیں اور افراد کبھی منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ پاتے۔گویا مثبت سوچ انسان کو ترقی،خوشحالی،پالینے کا عزم اور انسانی ہمدردی جیسے جذبوں سے سرفراز کرتی ہے۔بد سے بدتر حالات میں بھی مثبت سوچ انسان کو جینے کا حوصلہ،زندگی گزارنے کا سلیقہ و قرینہ سکھاتی ہے۔ماضی ہر افسوس اور حزن وملال کی بجائے موجود اور حال پر قناعت و توکل کرنا سکھاتی ہے۔اور وہ سب کچھ و آپ کی دسترس میں ہے ان پر خوش رہنا سکھا کر انسان کی زندگی کو خاش حال وپر مسرت صرف اور صرف مثبت سوچ کے حامل افراد کا ہی طرہ امتیاز ہو سکتا ہے۔
جبکہ منفی سوچ کے افراد یا قومیں ماضی کی یاسیت پرستی ،کچھ نہ ہونے کا شکوہ کے گرداب میں ہی الجھے اور پھنسے رہتی ہیں۔جس سے انسان نہ دین کا اور نہ ہی دنیا کا رہتا ہے۔کیونکہ منفی سوچ سے انسان دنیاوی ترقی سے تو عاری ہو ہی جاتا ہے خود ساختہ پریشانیوں کے سبب شکوہ زندگی کرتے کرتے خدا کو بھی گنجھلدار بجارت اور آسمانوں پر بیٹھ کر دنیا سے بے خبر قرار دینا شروع ہو جاتے ہیں۔دراصل یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو پریشانیوں کا سامنا اور مقابلہ دلیرانہ ،ہمت اور طاقت سے کرنے کی بجائے زندگی سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے خود سوزی کا راستہ اپنا لیتے ہیں،جو دنیا کے کسی بھی مذہب میں جائز اور حلال نہیں،اسلام تو ایسے شخص کی معافی کے لئے بھی کوئی گنجائش نہیں رکھتا۔
اپنی ناکامیوں کو پس پشت ڈال کر
ہر شخص کہہ رہا ہے کہ زمانہ خراب ہے
خرابی زمانہ کا شکوہ،گلہ یا شکائت بھی وہی کرتے ہیں جو منفی سوچ کے گرداب میں ہمہ وقت گوتے کھا رہے ہوں،مثبت سوچ کے حامل افراد تو اپنے اعمال صالح،عزم،ہمت اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے سمندروں میں راستے اور پہاڑوں کو سر کر لیتے ہیں۔ایسے لوگ ہمیشہ پانی کے آدھے بھرے گلاس پر قناعت اور توکل کرتے ہوئے باری تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہیں کہ اس ذات اعلیٰ نے اپنی ایک نعمت سے نوازا ہوا ہے۔جبکہ دوسری طرف منفی سوچ کے حامل افراد کو ہمیشہ شکوہ مند ہی دیکھا ہے کہ آدھا گلاس خالی کیوں ہے؟پھر معاملہ یہ ہوتا ہے کہ آدھی چھوڑ ساری کو جائے ،آدھی رہے نہ ساری پائے۔
پاکستان میں بھی چند دہائیوں سے میرے مشاہدہ میں یہ بات ہے کہ اکثر لوگ خدا تعالیٰ کی عطا کردہ لاکھ نعمتوں سے مستفید ہوتے ہوئے بھی کسی ایک آسائش کے نہ ملنے پر بھی شکوہ کناں ہوتے ہیں کہ اے خدا میرے ہی نصیب میں کیوں ایسا نہیں ہے؟حالانکہ ایسے شخص کو اللہ کی ان نعمتوں کا شکر بجا لانا چاہئے جو اس کے نصیب سے اسے ملی ہوئی ہیں۔اور شب و روز وہ اس سے مستفید بھی ہو رہا ہے۔ایسی سوچ میری دانست میں نہ تو انسان کی سرشت میں ہوتی ہے،نہ قسمت اور تقدیر میں،کیونکہ ہر بچہ فطرت پہ پیدا ہوا ہوتا ہے اور وہ فطرت کی طرح ہی صاف،شفاف اور خالص ہوتا ہے۔اگر ایسا ہے تو پھر انسانوں میں منفی سوچ کیسے،کیوں اور کہاں سے پیدا ہو جاتی ہے۔دراصل گرد ونواح کے معاشی،سیاسی اور دیگر حالات و واقعات انسان کے اندر منفی سوچ کے جنم لینے کا باعث بنتے ہیں۔ناانصافی،ظلم و زیادتی،حق کا نہ ملنا،معاشی عدم استحکام ،معاشی بد حالی اور عدم مساوات جیسے رویوں سے انسان منفی سوچ اپنانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
اگر حالیہ ملکی حالات کی بات کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت ایک پروگرام ابھی شروع بھی نہیں کرتے مخالفین اس کی ناکامی کا ڈھول پیٹنا شروع کر دیتے ہیں،جیسے کہ آج ہی ٹی وی پر ایک رپورٹ دیکھ رہا تھا کہ کراچی کلین مہم میں نالوں سے کچرا نکالنے کا عمل تو شروع ہو گیا ہے تاہم اس کو اٹھا کر ڈمپ کرنے اور اٹھانے کا عمل ابھی تک شروع کیوںنہیں کیا جا رہا ہے کیونکہ محکمہ موسمیات نے تو مزید بارشوں کی پیش گوئی بھی کر رکھی ہے۔حالانکہ علی احمد یہ بات ساری قوم کے سامنے رکھ چکے ہیں کہ پہلے مرحلے میں نالوں کی صفائی اور دوسرے مرحلے میں اس کچرے کو اٹھانے کا عمل شروع کیا جائے گا کیونکہ یہ کچرا کوئی ایک آدھ من نہیں ہے ٹنوں کے حساب سے ہے۔ایسے ہی مسئلہ کشمیر پر ابھی آرٹیکل 370 کا ابھی خاتمہ ہوا ہی تھا جو کہ ہندو بنئے کی سوچی سمجھی سازش اور سوتے میں وار کرنے کے مترادف تھا ،حزب مخالف مع سازو سامان حکومت پر چڑ ھ دوڑی کہ حکومت کیا سو رہی تھی کہ ہندوستان نے اتنا بڑا قدم اٹھایا اور ہم کوئی فیصلہ نہیں کر پائے،حالانکہ یہی وہ لوگ تھے جو گذشتہ تیس سال سے حکومت کے مزے لوٹتے رہے کبھی مسئلہ کشمیر کو مسئلہ خیال کرتے ہوئے کوئی حل پیش نہ کیا۔
الغرض اگر ہمیں واقعی ترقی کرنا ہے تو پھر منفی سوچ کی بجائے مثبت سوچ کو اپناتے ہوئے ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے مل کر عزم،ہمت اور حوصلہ سے ہر مشکل کو عزم صمیم سے آسان بنانا ہے تاکہ ہمارا شمار بھی دنیا کی فلاحی ریاستوں میں ہو سکے۔ان شااللہ۔