پاکستان میں دہشت گردی کی لہر نیو یارک میں جڑواں ٹاور پر 11/9 دہشت گردانہ حملہ اور اس کے بعد افغانستان پر امریکی قیادت میں غیر ملکی حملہ و فوجی کارروائی کے بعد سے ہی شروع ہوئی ہے۔ جس سے اب تک پاکستان میں 40ہزار افراد ہلاک، سیکڑوں ہزار معذور اور لاکھوں بے گھر ہو گئے ہیں، شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک پورا ملک دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے۔ گذشتہ 13 سال کے دوران پاکستان نے دہشت گردی کی ہر وہ قسم دیکھ لی جس کا پر امن دنیا میں شاذو نادر ہی تصور کیا جاسکتا ہے۔ اس دہشت گردی نے صرف مسلمانوں کو ہی نشانہ نہیں بنایا بلکہ بلا امتیاز سبھی اس کا نشانہ بن رہے ہیں۔ مسجدیں چاہے شیعہ مسجد ہو یا سنی مسجد، مندر، چرچ، انتہائی گھنی آبادی میں واقع رہائشی اپارٹمنٹس، ہوٹل، عوامی مقامات، اسکول، تھانے اور فوجی ہیڈ کوارٹرز غرضیکہ سبھی دہشت گردوں کا نشانہ بنے ہیں۔ لاتعداد مذہبی رہنما، دانشوران، علمائ، مصنفین، صحافی، پروفیسرز، ڈاکٹرز، سوشل ورکرز، اسکولی بچے، سیاح، سیاستداں، ممبران پارلیمنٹ، پولیس وفوج کے اعلیٰ افسران سے لے کر ادنیٰ اہلکار مارے جا چکے ہیں۔ جیلوں پر حملہ کر کے القاعدہ اور طالبان کے بہت سے خطرناک انتہا پسندوں کو آزاد کرا دیا گیا۔ دہشت گردی کی ان وارداتوں کی پاکستان کی کالعدم انتہا پسند تنظیمیں اور طالبان کے مختلف گروہ متواتر اور کھلم کھلا ذمہ داریاں لیتے رہے۔ اور دوسری جانب حکومت پاکستان، غیر فوجی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں ، نیم فوجی طاقتیں اور فوج دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ وصولی، تاوان ، اجتماعی جنسی زیادتی اور لوٹ کی وارداتوں پر قابو نہ پاسکیں۔ ہر مہلک حملے اور ہلاکتوں و خونریزی کے بعد اعلیٰ وزراء اور حکام جائے وقوعہ پہنچتے ہیں، روایتی ٹسوے بہاتے ہیں، ہلاک شدگان کے لواحقین اور زخمیوں کو معاوضہ کے اعلان کے ساتھ تعزیتی کلمات کہہ کر چلتے بنتے ہیں۔
لیکن وہ اعلان کردہ معاوضہ ہلاک شدگان کے پسماندگان یا زخمیوں کو شاید ہی کبھی دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور کراچی کے عباس ٹاؤن میں واقع گارمنٹس ٹاؤن فیکٹری میں آتشزدگی، جس میں 300 افراد ہلاک ہوئے، کوئٹہ میں ہزارہ قبیلہ کے افراد کی خونریزی، پشاور کے بازار میں بم دھماکہ اور نہ جانے کتنے حادثات و وارداتوں میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کو آج تک معاوضہ نہیں ملا۔ وہ انتہائی بدقسمت غریب متاثرین آج تک معاوضہ کے انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب ملے کہ وہ اپنا اور اپنے مکلفین کا پیٹ پال سکیں اور سر چھپانے کا ٹھکانہ کر سکیں۔ پاکستانی عوام کی قسمت اب دہشت گردوں کے رحم و کرم اور پاکستانی حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہے۔یہ سلسلہ جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار کے خاتمہ کے بعد قائم ہونے والی غیرفوجی حکومت کے قیام کے بعد سے ہی جاری ہے۔ ابھی تک کوئی بھی دہشت گرد نہ تو پکڑا گیا اور نہ ہی کسی کو پھانسی دی گئی کہ دوسرے دہشت گردوں کو سبق ملتا۔ اس کے بجائے حکومت اور حزب اختلاف پانچ سال سے جاری اس دہشت گردی کا ٹھیکرہ مشرف حکومت کے سر پھوڑ رہے ہیں۔
پاکستان کے عوام بڑے بد قسمت ہیں اور محسوس کر رہے نہیں کہ وہ جہنم میں رہ رہے ہیں اور کوئی انہیں اس جہنم سے نجات د لانے والا نہیں ہے۔سب سے زیادتکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ صدر، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ سے لے کر وزیر داخلہ تک کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ عوام میں آکر ” معذرت ” لفظ کہیں اور اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مستعفی ہو جائیں۔ انہوں نے مغربی دنیا کے بینکوں میں لاکھوں ڈالر جمع کر رکھے ہیں اور یورپ اور امریکہ میں پر تعیش رہائش گاہیں حاصل کر رکھی ہیں۔
Afghanistan ,Iraq
بدقسمتی سے نہ صرف سارا نظام بد عنوان ہے بلکہ حکومت بھی عوام کی زندگیوں اور ان کی عبادت گاہوں، اسکولوں، اسپتالوں، بازاروں، اور مکانات کو تحفظ بہم پہنچانے میں مکمل ناکام ہو گئی۔ یہ حملے ایک منصوبہ کے تحت ان طاقتوں نے کیے یا کرائے ہیںجو امریکہ اور یورپ کے لیے افغانستان اور عراق کی طرح پاکستان میں بھی فوجی کارروائی کاجواز پیدا کر رہے ہیں۔ یہ ملک دشمن عناصر پاکستان اور بیرون پاکستان ہو سکتے ہیں۔ یہ پاکستان کے استحکام کے لیے انتہائی خطرناک اور بہت سنگین اشارہ ہے۔ پاکستانی قوم کو اپنے نسلی، طبقاتی ، مسلکی اور مذہبی اختلافات فراموش کر کے باہمی اتحاد و یکجہتی کا زبردست مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ انہیں دہشت گردوں اور ان کی دہشت پسندانہ سرگرمیوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا پڑے گا۔ انہیں اپنی حکومت پر دباؤ ڈالنا ہو گا کہ ان دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر سے نہ کوئی رعایت برتی جائے اور نہ ہی ان سے کوئی سمجھوتہ کیا جائے اور پاکستانی فورسز ان کی سرکوبی کے لیے جس حد تک ہو سکے اتنی طاقت سے ان کے خلاف فوجی کارروائی کریں۔ پاکستانی فورسز پر سرکاری خزانہ کا 70 فیصد حصہ لٹا دیا جاتا ہے لیکن اتنا خزانہ لٹانے سے کیا حاصل اگر وہ دہشت گردوں سے ہی نہ نمٹ سکیں۔
M A Tabassum
تحریر: ایم اے تبسم ) 0300-4709102 email: matabassum81@gmail.com,