بالآخر اپوزیشن کے شور مچانے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف قومی اسمبلی پہنچے، حکیم اللہ محسود کے ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد مذاکراتی عمل سبو تاژ ہو گیا تھا اسکے بعد پاک فوج کے جوانوں پر حملے کئے گئے جس میں متعدد جوانوں نے جان کی قربانی دی اور شہادت جیسے عظیم رتبے پر فائز ہوئے، ان حملوں کے بعد ہر طرف آپریشن کا شور مچا ہوا تھا ،دفاع پاکستان کونسل، جماعت اسلامی و دیگر جماعتیں بار بار کہہ رہی تھیں کہ آپریشن مسائل کا حل نہیں، آپریشن سے بہت زیادہ نقصان ہو گا، مذاکرات سے ہی مسائل کو حل کیا جائے، میاں نواز شریف نے مسلم لیگ(ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کیا جس میں اکثریت نے آپریشن کی تجویز دی جبکہ فیصلے کا ختیار وزیر اعظم کو دے دیا۔
میاں نواز شریف جب اسمبلی پہنچے تو سب اس خبر کے منتظر تھے کہ آج وہ آپریشن کا اعلان کریں گے مگر انہوں نے ایک بار پھر طالبان کو امن کی دعوت دے دی، ان کی طرف ہاتھ بڑھایا اور طالبان سے مذاکرات کے لئے 4 رکنی کمیٹی کا باضابطہ اعلان کر دیا جس کی نگرانی وہ خود کریں گے جبکہ چوہدری نثار روزمرہ معاملات پر کمیٹی کی معاونت کریں گے۔ قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران وزیراعظم نے کہا کہ دہشتگردی کے خاتمے کے لئے حکومت واضح موقف اور حکمت عملی پر پہنچ چکی ہے، دہشتگردی کے مسئلے پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور تمام سیاسی جماعتوں کی رائے لی گئی، ریاستی اداروں کے ذمہ داران سے بھی رابطہ رہا، اجتماعی دانش کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت اس نتیجے پر پہنچی ہے، اقتدار اللہ کا کرم اور عوام کی امانت ہے، ہم اپنے کاموں پر اپنے رب اور عوام کے سامنے جواب دہ ہیں، حکومت کا بنیادی فریضہ ہے کہ عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم کیا جائے، پاکستان کے عوام اور ادارے دہشتگردی کی زد میں ہیں، ہمارے معصوم بچے مررہے ہیں، اس صورت حال میں وہ اسے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ عوام کے جان و مان کو ہر قیمت پر تحفظ دیا جائے، اسلام میں ایک شخص کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے، دنیا کا کوئی مفتی اس کے جواز کا فتویٰ نہیں دے سکتا، اسلام کا دہشتگردی سے کوئی واسطہ نہیں، وہ ہر انسان کی جان کو محترم قرار دیتا ہے، ریاست کا فرض ہے کہ اگر کسی کی جان ناحق لی گئی ہو تو ریاست اس کی داد رسی کرے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ریاست کسی بھی زہری کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت سے صرف نظر نہیں کرسکتی، قوم 14 سال سے دہشتگردی کا عذاب برداشت کررہی ہے، یہ ایک آمر کے فیصلوں کا نتیجہ ہے جس نے پاکستان کو فساد کا گڑھ بنا دیا ہے، دہشتگردی نے ہزاروں پاکستانیوں کی جان لے لی، اس میں عام شہری، سیکیورٹی فورسز کے جوان اور علما بھی شامل ہیں، اس کے باوجود ہم نے ایسے عناصر کو موقع دیا کہ وہ امن کا راستہ اختیار کرے، اے پی سی میں سیاسی جماعتوں نے ہمیں مزاکرات کا مینڈیٹ دیا تاکہ وہ لوگ عام شہریوں کے جان و مال سے نہ کھیلیں اور ملک کے آئین کی پاسداری کریں لیکن انہوں نے اعلانیہ مذاکرات سے انکار کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اے پی سی کے فیصلے کے بعد میجر جنرل ثنا اللہ نیازی کو قتل کیا گیا اور اس کی ذمہ داری فخر سے قبول کی گئی۔ پشاور، بنوں، ہنگو اور راولپنڈی میں قتل عام کیا گیا، میڈیا کے کارکنوں کو قتل کیا جارہا ہے، سیکڑوں افراد شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے، یہ وحشت اسلام گوارا کرتا ہے نہ دنیا کا کوئی اور قانون اور مذہب۔ ڈرون حملوں کو رکوانے کے لئے حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے لیکن ہم ان لوگوں کو بھی صرف نظر نہیں کرسکتے جو اسے جواز بنا کر انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں۔ اس صورت حال کو مزید برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کی ساکھ پر دنیا سوالات اٹھا رہی ہے، ہم ملک اور قوم کو دہشتگردی کے ہاتھوں یرغمال نہیں بناسکتے
Terrorism
امن کے حصول کے لئے تمام قوم یکسو ہوچکی ہے، ہم ماضی کے تلخ تجربات کو پس پشت رکھتے ہوئے پر امن حل کو ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں، انہوں نے مذاکرات کی پیش کش کی ہے لیکن مذاکرات کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ دہشتگردی کی وارداتوں کو فوری طور پر بند کر دیا جانا چاہیئے کیونکہ مذاکرات اور دہشتگردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی، ملک میں امن کا کیا قایم ہمارا مشترکہ قومی مشن ہے کہ اس میں ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ہم امن کی خواہش میں 7 ماہ سے لاشیں اٹھا رہے ہیں لیکن ایک بار پھر مذاکرات کی راہ ہموار کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی جارہی ہے جس میں عرفان صدیقی، میجر ریٹائرڈ محمد عامر، رحیم اللہ یوسف زئی او افغنستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم مہمند شامل ہوں گے۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی اور طالبان سے مذاکرات کے لئے تشکیل دی جانے والی کمیٹی کے رکن عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ طالبان کو چاہئے کہ وہ مذاکرات کے حوالے سے حکومتی کمیٹی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی جانب سے بھی کمیٹی کا اعلان کریں تاکہ کوئی ایسا راستہ نکالا جاسکے جس سے آگ وبارود اورخون کا کھیل ختم ہو۔ آج ہماری درس گاہیں محفوظ نہیں ہیں، کھیل کے میدان سونے ہوگئے
جب کہ کوئی سیاح پاکستان آنے کیلئے تیار نہیں ان تمام مسائل سے نکلنے کیلئے کسی پیش گی شرط کے بغیر اس کمیٹی کو تشکیل دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے مذاکرات کے لئے جو کوشش کی گئی ہے اس میں روائتی طریقے سے ہٹ کر حکومتی اور سینئر سیاستدانوں کے بجائے ایسے افراد کو شامل کیا گیا ہے جن کا اس حوالے سے گہرا مطالعہ، مشاہدہ، تعلقات اور اہم کردار ہے، ان اراکین کے تجربات اور دیانتداری سے حکومت فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ طالبان کے مختلف گرپوں کی طرف سے حکومت کی جانب سے تشکیل دی جانے والی کمیٹی کو سراہتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ پہلی سنجیدہ کوشش ہے لیکن اس سے پہلے بھی حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لئے کی جانے والی کوششیں سنجیدہ تھیں جن کے کامیاب نہ ہونے پر ہم سب کو افسوس ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے حکومت کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات اور مذاکراتی ٹیم سے متعلق حتمی فیصلہ شوریٰ کرے گی، مذاکراتی ٹیم اور مذاکرات کے حوالے سے بھی حتمی فیصلہ شوریٰ کرے گی۔شاہد اللہ شاہد کا کہنا تھا کہ شوریٰ کا اجلاس ختم ہونے پر میڈیا کو تفصیلات جاری کر دی جائیں گی۔ انہوں نے طالبان میں دھڑے بندی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملا فضل اللہ کی قیادت میں تمام گروپ متحد ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے طالبان سے مذاکرات کا برملا اور واضح نقشہ پیش کردیا لیکن بہتر ہوتا اس فیصلے سے پہلے حکومت کا اتحادی ہونے کے ناطے ہم سے مشاورت کرلی جاتی تو ہم وزیراعظم کو حساس معاملات سے بھی آگاہ کرتے، اگر وزیراعظم آج جنگ کا طبل بجا دیتے تو ہمارا لب و لہجہ کچھ اور ہوتا، ملک کی موجودہ صورتحال پر تمام سیاسی جماعتیں اختلافات کے باوجود متحد ہیں۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن وزیراعظم کی مجبوریوں کو سمجھتی ہے۔ حکومت مذاکرات کی طرف ضرور جائے لیکن یہ عمل طویل نہیں ہونا چاہیے۔ اپوزیشن کبھی بھی اس معاملے پر سیاست نہیں کرے گی۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزیراعظم کی جانب سے مذاکرات کی خود نگرانی کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے وزیراعظم سے رانا ثناء اللہ کے بیان کا نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے ذریعے امن کی راہ ہموار ہوتی ہے تو اس کا موقع دینا چاہیے۔ طبل جنگ کا آپشن بھی موجود تھا لیکن وزیراعظم نے مذاکرات کو ترجیح دی۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کمیٹی کی تشکیل کیلئے خیبر پختونخوا حکومت سے مشاورت کی گئی تھی۔ اب حکومت کی یہ چار رکنی کمیٹی کب سے کام شروع کرتی ہے اور کیا نتیجہ نکلتا ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا، پاکستان کے استحکام کے لئے یہ ضروری ہے کہ دونوں اطراف سے جنگ بندی ہو اور مذاکرات کسی حتمی نتیجہ کو پہنچیں تا کہ اس ملک میں امن آ سکے۔