نواز شریف ایک زمانے میں طالبان سے مذاکرات کے زبر دست حامی تھے۔مگر اقتدارملنے بعد کے ایک عرصہ تک وہ ان مذاکرات کے سلسلے میں مخمصے کا شکار رہے۔بعض قوتیں انہیں مذاکرات کی میز پر آنے سے شائد بزور روک رہی تھیں مگر جب حکومت نے دفاعِِ پاکستان آرڈیننس کا اجرا کرادیا تو شائد وہ قوتیںکچھ شانت ہوگیئں۔(دفاعِ پاکستا آرڈیننس ایک الگ بحث ہے جس پر آئندہ کسی کالم میں تفصیلی بحث کرنے کی کوشش کریں گے)گذشتہ اے پی سی جو 10 ،ستمبر 2013 کو منعقد ہوئی۔ جس میںتمام ہی سیاسی جماعتوںنے نواز حکومت پر بھر پور اعتماد کا اظہار کیا تھا۔( ان میں سے اکا دُکا نے اس پر کرہا)ََ آمادگی کا بہر حال اظہار کر دیا تھا۔مگر حکومت سات ماہ تک مذاکرات کے ضمن میں کوئی پیشرفت کرنے سے قاصر رہی اور سات ماہ کا عرصہ حکومت نے ٹامک ٹویئاں مارنے میں گذار دیا۔دوسر جانب طالبان کے خلاف حکومتی کاروئیاں اور طالباکی سکورٹی اداروں کے خلاف کارئیاں برھتی گیئں جن میں سکورٹی فورسزکے ساتھ بے گناہ عوام کا بھی خاصہ نقصان دیکھنے میں آیا۔جس کی وجہ سے میڈیا اور رائے عامہ تیزی سے طالبان کے خلاف ہونا شروع ہوگئی ۔اسلام مخالف قوتوں نے اس کیفیت سے بھر پور فائدہ اٹھانا شروع کر دیا۔دوسری جانب حکومتی اداروں کا بھی سخت روئیہ طالبان کے خلاف برھنے لگا ۔یہی کچھ مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس 27جنوری 2014میںدیکھنے میں آیا۔اس اجلاس کی صدارت وزیراعظم نواز شریف کر رہے تھے یہاں لیگیوں کی بھاری اکثریت نے طالبان کے خلاف کاروائی کرنے کی شدت کے ساتھ حمایت کی وہ شائد مشرقی پاکستان کی تاریخ ایک مرتبہ پھر دہرانے کے لئے بے چین ہوے جا رہے ہیں۔
طالبان کے خلاف کاروئیوں کے ضمن میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی وزیرِ اعظم پاکستان محترم نواز شریف پر دبائو بڑھنا شروع ہوگیا تھا اور اسمبلی میں بھی یہ بات بار بارکہی جا رہی تھی کہ وزیر اعظم طالبان کے سلسلے میں اسمبلی کے فلور پر آکر اپنی پوزیشن کی وضاحت کریں۔28جنوری کوجب وزیر اعظم اسمبلی کے فلور پر آئے تو انکا لب ولہجہ سخت دکھائی دیتا تھا ۔مگر نقصانات کا ذکر کرنے کے باوجود انہوں نے کہیں بھی طالبان کو اپنے خطاب کا حصہ نہیں بنایا۔سکورٹی فوسز پر خود کش حملوں اور قتل وغارت گری کا انہوں نے سخت لہجے میں ذکر کیا اور سختی سے ان حملہ آوروں کو کچل دینے کی بھی دھمکی دی۔اور اپنے خطاب کے آخری حصے میں انہوں نے ایک اور موقع دینے کے نام پر طالبان سے مذاکرات کی بساط بچھاہی دی۔
Taliban
وزیراعظم نے ایک چار رکنی کمیٹی جس کے ارکان کو طالبان سے مذاکرات کا آغاز کرنا ہے کا اعلان کر دیا۔ اس چار رکنی کمیٹی میں وزیر اعظم کے مشیر خصوصی اور مشہور کالم نگار عرفان صدیقی، مشہور صحافی اور شمالی علاقہ اور فاٹا کے امور کے ماہر رحیم اللہ یوسف زئی، میجر عامریہ بھی فاٹا کے امور کے ماہر ہیں افغان امور اور پاکستانی طالبان کے حوالے سے وزیراعظم ان کی رائے کو بہت اہمیت دیتے ہیں، اور رستم شاہ مہمند بھی فاٹا کے امور سے خاصی واقفیت رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم کے اس اعلان کو ان تمام دانشوروں نے کسی نہ کس شکل میں مان لیا ہے بلکہ مذاکرات پر اپنی آمادگی کا بھی اظہار کر دیا۔ ان کے علاوہ اکثر دانشور وں نے سوائے امریکی حمایت یافتہ نام نہاد سکولر ذہنیت کے لوگوں کے ناصرف خیر مقدم کیا ہے بلکہ ان کی حمایت کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ مذاکرات کی خبروں پرنام نہاد ترقی پسند سیخ پا ہورہے ہیں۔ جن کی کوشش یہ ہے کہ طالبان سے مذاکرات نہ کئے جائیں بلکہ انہیں گولہ بارود کی آگ میں جلا کر ختم کر دیا جائے اور مشرقی پاکستان کی تاریخ کو دھرانے میں دیر ناکی جانی چاہئے۔
طالبا کو بارود کا ایندھن بنا کر سیکولر مزاج لوگوں کو پاکستان میں کھُل کھیلنے کے مواقعے دیدیئے جائیں۔ اس کے اگلے دن پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے یہ کہہ کر اس معاملے کو اور ہوا دی کہ طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ آپریشن کی نوعیت اور طریقہ کار فوج طے کرے گی۔ اور پنجاب میں 174 مقامات پر کاروئی کی جائے گی۔یہ اعلان پاکستانی طالبان کے لئے خطرے کی گنٹی سے کم نہ تھا۔لیکن اس کے باوجود طالبان نے بھی اپنی جانب سے پانچ رکنی مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کر دیا ہے۔ جس میں پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان، جمیعت، علماء اسلام ف کے مولانا سمیع الحق، جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم، مفتی کفایت اللہ اور لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز شامل ہیں۔ جس پر مولانا فضل الرحمان کچھ پریشانی دیکھے جا رہے ہیں۔
وزیر اعظم کے مذاکرات کے اس اعلان کا تحریک، انصاف اورجماعتِ اسلامی نے خیر مقد کیا ہے ۔مو نا فضلا لرحمان نے ایک جانب تواس بیان کا خیر مقدم کیا ہے دوسر جانب انکا خیال ہے کہ ”ایک اور موقع”دینے کے الفاظ سے انہیں سازش کی بو آرہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ معلوم نہیں کون وزیر اعظم سے ملاقات میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ اگر ان سے ملاقات ہوجاتی تو انہیں اچھا مشورہ دیدیتا تحریکِ طالبان پنجاب کے رہنما عصمت اللہ معاویہ نے بھی حکومتی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ پاکستان کی وہ قوتیں جو پاکستان میں مزید خون خرابے کی مخالف ہیں ان سب نے وزیراعظم کے مذاکراتی عمل کے بیان کا دل سے خیر مقدم کیا ہے۔ مگر پاکستان کے دشمنوں کے آلہِ کار اس مذاکراتی عمل کی شدت کے ساتھ مخالفت کر رہے ہیں جن میں کچھ سیاسی بازیگر بھی شامل ہیں۔
یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے مخالف گرہوں، اندرونی اور بیرونی قوتوں اور لابیز اور اثرو رسوخ رکھنے والی قوتوں کی وجہ سے حکومت کی جانب سے بنائی گئی مذاکراتی ٹیم کے چاروں ارکان کو اپنی سلامتی کے شدید خطرات لاحق ہیں لہٰذا حکومت کی جانب سے انہیں مکمل سکورٹی فرام کی جائے گی۔ پاکستان کی حکومت کے طالبان سے مکالمے پر بعض غیر ملکی حکومتیں اور بیرونی قوتیں ناراضگی کا بھی برملا اظہار کر رہی ہیں ان کا طریقہ کار یہ بھی رہا ہے کہ ان کی مرضی کے خلاف کام کرنے والے لوگوں کو یہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے راستے سے ہٹوا دیتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مذاکراتی کمیٹی کی حفاطت کا حکومت خاطر خواہ انتظام کر رہی ہے۔ دوسر جانب مذاکراتی کمیٹی کے ارکان نے وزیر اعظم پاکستان سے یہ یقین دہانی بھی حاصل کرلی ہے کہ حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی اور طالبان سے مذاکرات کے نام پر دھوکہ دہی نہیں کی جائے گی۔ طالبان نے مذاکرات کاروں سے یہ یقین دہانی بھی حاصل کی ہے کہ مذاکرات کے کسی بھی موقعے پر کوئی انٹیلی جنس کا نمائندہ اس میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
لکھاریوں کی اکثریت اس شبہے کا اظہار کر رہی ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں وزیر اعظم کی بنائی گئی کمیٹی کی کامیابی مشکوک دکھائی دیتی ہے۔ حالانکہ وزیراعظم نے کمیٹی سے ملاقات کے دوران کمیٹی کو اس بات کی یقین دہانی کراد ی ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کسی دبائو کے بغیر جاری رکھنے کے مجاز ہونگے۔ طالبان کی جانب سے بھی کہا جا رہا ہے کہ مذاکرات کے سلسلے میں مشاورت جاری ہے۔ طالبان بھی بہت جلد اپنی مذاکارتی ٹیم کا اعلان کر دیں گے اور پھر دونوں جانب سے مذاکراتی عمل کا آغاز ہو جائے گا انشاء اللہ….ہر سچے پاکستانی کی یہ دلی دعا ہے کہ رب کائنات اس مذاکراتی عمل کی بیل کو منڈھے چڑھا دے۔ تاکہ مسلمانوں کا نصرانی سازشوں سے بہنے ولا لہو رک جائے۔ اور تمام پاکستانی امن و سکون کی زندگی گزارنے کے اہل ہو سکیں۔
دہشت گردی کے خلاف جو جنگ امریکہ نے شروع کی تھی اسمیں پاکستان کا بے تحاشہ جانی و مالی نقصان ہو چکا ہے سو ارب ڈالر سے زیادہ کا پاکستان کا مالی نقصان ہوا تو 60،ہزار سے زیادہ پاکستانی صرف ایک جانب سے جانیں گیئں تو دوسری جانب بھی جانی نقصان بڑے پیمانے پر ہوا جس میں ڈرون حملوں سے سبسے زیدہ ہلاکتیں ہویئں۔ اسکے علاوہ امریکہ کا جانی نقصان اس جنگ میں صرف دو ہزار سے کچھ زیاد ہ ہوا اور 507 ارب ڈالر کا امریکہ کو مالی کو نقصانات اٹھانا پڑے۔
Prof Dr Shabbir Ahmad Khurshid
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 03333001671 shabbir4khurshid@gmail.com