ڈرون طیاروں کی چھاؤں میں سنجیدہ، با معنی اور با مقصد مذاکرات کی تگ و دَو شروع ہو گئی۔ بد بخت ترین ہے وہ شخص جو مذاکرات کی کامیابی کے لیے دعا گو نہ ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ سیکولر نظریات کے حامل تجزیہ نگاروں کو یہ مذاکرات ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ وجہ صرف یہ کہ اگر مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں تو اِس ارضِ پاک میں شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نفاذ ممکن ہو جائے گا جو ہمارے سیکولر بھائیوں کو کسی بھی صورت گوارانہیں، اُنہیں تو شاید ”اسلام” کے نام سے ہی چِڑ ہے۔ اسی لیے اُنکی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وطنِ عزیز کا نام اسلامی جمہوریہ کی بجائے سیکولر جمہوریہ پاکستان رکھ دیا جائے۔ اِس معاملے میں وہ اکثر حضرت قائدِ اعظم کو گھسیٹنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں البتہ سبھی کی تان اسی پر ٹوٹتی ہے کہ مذاکرات ہی بہتر راہ ہے حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ مذاکرات کی کامیابی کا منطقی نتیجہ شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نفاذہی ہے جو اُنہیں قبول نہیں ۔اسی لیے وہ مذاکرات کی ناکامی کے بارے میں دلائل کے انبار لگاتے رہتے ہیں۔
مذاکرات کی کامیابی کی شدید ترین خواہش پالنے کے باوجود ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ کامیابی اگر نا ممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے کیونکہ مذاکرات کی راہ میںکئی ایسی دشوار گزار گھاٹیاں ہیں جنہیں پار کرنا ممکن نظر نہیں آتا ۔آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اوریہ تو طے ہے کہ وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف خلوصِ دل اور خلوصِ نیت سے مذاکرات کی گاڑی منزلِ مقصود تک پہنچانے کے خواہاں ہیں اور پوری قوم کی آرزو بھی یہی ہے کہ آگ اور خون کی اِس بارش کا خاتمہ ہو جائے لیکن بہت سی قوتیں ایسی ہیں جو مذاکرات کو ناکام کرنے کے لیے سر گرمِ عمل ہو گئی ہیں ۔اِن قوتوں کا سرخیل امریکہ ہے جسے پاکستان میں کسی بھی صورت میں امن گوارانہیں ۔پہلے مذاکرات کو ناکام بنانے کے لیے حکیم اللہ محسود کو ڈرون کی غذا بنایا گیا اور اب مذاکراتی کمیٹی کے اوپر ڈرون طیاروں کی چھاؤں کرکے واضح پیغام دیا گیا۔وزیرِ داخلہ جناب چوہدری نثار احمد کو جب مولانا سمیع الحق نے یہ بتلایا کہ مذاکراتی کمیٹی کو بار بار جگہ تبدیل کرنی پڑ رہی ہے کیونکہ ڈرون پروازیں جاری ہیں تو چوہدری نثار احمد نے یہ جواب دیا کہ اگر ڈرون حملہ ہوا تو یہ پاکستان دشمنی ہو گی ۔جذباتی سہی لیکن غیرت کا تقاضہ تو یہی تھا کہ امریکی سفیر کو یہ پیغام دیا جاتا کہ اگر فوری طور پر ڈرون واپس نہ گئے تو اُنہیں مار گرایا جائے گا لیکن ایسا ہوا نہیں اور شاید کبھی ہو گا بھی نہیں۔ اقبال نے کہا تھا کہ
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِدارا
ایران نے اپنی غیرتوں کا بھرپور ثبوت دیتے ہوئے امریکی ڈرون اتار لیا اور شمالی کوریا نے بھی امریکی طیارہ مار گرایا ۔وہ دونوں ملک آج بھی زندہ اور دہشت گردامریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں حالانکہ دونوں میں سے کوئی بھی ایٹمی قوت نہیں لیکن دُنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ہم میں اتنی سَکت بھی نہیں کہ ہم امریکی سفیر کو بلا کر احتجاج ہی ریکارڈ کروا سکیں ؟۔بطور مسلم ہمارا یہ ایمان ہے کہ یہ حیاتِ ارضی مانندِ سراب ہے موت کا بے رحم ہاتھ بہادر اور بز دِل کو ایک ساتھ دبوچتا ہے اور فنا کی انگلیاں دونوں کی ہڈیوں کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہیں ۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تختِ شاہی پہ وہی متمکن ہوتے ہیں جن کی روحیں توانا اور پُر عزم ہوتی ہیں اِس کے باوجود بھی ہمارے حکمرانوں کے ہاںجبر کے پرچم لہرانے اور مقہوروں پر ظلم کے انگارے برسانے والے ہی معتبر ٹھہرتے ہیں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ قوم تو مَر مٹنے کو تیار ہے اگر یقین نہ آئے تو ایک عشرے سے جاری اُس خوں ریزی کو دیکھ لیں جو پچاس ہزار سے زائد انسانی جانوں کو نگل گئی لیکن پھر بھی ہنگامہ ہائے زیست میں کچھ فرق نہ آیا، کوئی چوہوں کی طرح سے اپنے بِل میں گھُسا ، نہ کسی کی جبیں خوف سے عرق ریز ہوئی بم دھماکے اور خود کش حملے ہوتے رہے لیکن قومی زندگی ایک لحظے کے لیے بھی رُکی ، سُکڑی نہ سمٹی۔اگر واقعی ہمارا یہ ایمان ہے کہ موت کا ایک دِن معین ہے تو پھر جھجک کیوں؟ شاید حکومت کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہوں گی جن کی ہمیں گھر بیٹھے خبر ہے، نہ ہو سکتی ہے۔
Taliban
لاریب پوری قوم مذاکرات کے لیے یکسو ہے اور مذاکرات ہی قوم کا اجتماعی فیصلہ ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا طالبان بھی مذاکرات کے خواہاں ہیں؟ اور کہیں ایسا تو نہیں کہ طالبان کو اپنی صفیں درست کرنے کے لیے کچھ عرصہ درکار ہو جسے وہ مذاکرات کی آڑ میں حاصل کرنا چاہتے ہوں ؟۔الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے طالبان کے جو پندرہ مطالبات سامنے آئے ہیں اُن میں سے کچھ کا تعلق دینِ مبیں سے ہے یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا اور آج بھی پاکستان میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کے دل اللہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قُرآن کی محبت سے معمور ہیں اِس لیے طالبان کے اِ ن مطالبات سے انکار صریحاََ دین سے انکار ہے۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ہر مسلمان طالبان کے اِن مطالبات کا حامی ہی ہو گالیکن طالبان کا اوّلین مطالبہ تو ڈرون حملوں کی بندش ہے حالانکہ طالبان خوب جانتے ہیں کہ یہ حملے امریکہ کروا رہا ہے۔ تو کیا طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حملے حکومتِ پاکستان کی ایماء اور مرضی سے ہو رہے ہیں اگر ایسا ہے تو پھر مذاکرات کی کامیابی مشکوک ہو جاتی ہے اور اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حملے ”عالمی دہشت گرد” امریکہ خود ہی کروا رہا ہے اورحکومتِ پاکستان اِس معاملے میں بے بَس ہے تو پھر یہ مطالبہ ہی سرے سے نا جائز ہے۔
طالبان کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ ڈرون حملوں میں تباہ ہونے والے مکانات کی از سرِ نَو تعمیر کروائی جائے اور مرنے والوں کو معاوضہ دیا جائے۔ شاید طالبان بھول گئے ہیں کہ اُن کہ دہشت گردی کی بھینٹ پچاس ہزار سے زائد انسانی جانیں چڑھ چکی ہیں اور اُن کے بم دھماکوں اور خود کش حملوں سے کھربوں روپے کا مالی نقصان بھی ہو چکا ہے۔ کیا طالبان اِس نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟۔اگر نہیں تو پھر وہ ایسا مطالبہ ہی کیوں کرتے ہیں جسے پورا نہ کیا جا سکے۔ طالبان کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ گرفتار قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ یہ ایسا مطالبہ ہے جسے آئینی حدود کے اندر رہ کر ہی پورا کیا جا سکتا ہے۔
کیا ہمارا آئین و قانون اجازت دے گا کہ سنگین نوعیت کے مقدمات میں ملوث ملزمان کو رہا کر دیا جائے ؟۔طالبان یہ بھی چاہتے ہیں کہ فاٹا سے افواجِ پاکستان کو واپس بلا لیا جائے لیکن یہ تومذاکرات کی کامیابی سے مشروط ہے اور ایسا تبھی ممکن ہو سکتاہے جب طالبان کی طرف سے کوئی قابلِ قبول گارنٹی مِل جائے لیکن طالبان ایسی کوئی گارنٹی دینے کے اہل اِس لیے نہیں کیونکہ وہ اقرار کرتےہیں کہ طالبان کے کئیگروہ ایسے ہیں جو اُن کے بَس میں نہیں ۔اب تو طالبان کا ”احرار الہند” نامی ایک ایسا فدائی گروپ منظرِ عام پر آ گیا ہے جس نے حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے شہری علاقوں میں براہِ راست دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ احرار الہند کے علاوہ بھی کئی گروپ ایسے ہیں جنہیں امریکہ اور بھارت کی مکمل آشیربادحاصل ہے۔ اِن گروہوں کا کام ہی افراتفری پھیلانا ہے۔ اِن حالات میں افواجِ پاکستان کی واپسی ممکن نظر نہیں آتی۔ اگر طالبان کی نیت میں خلوص ہے تو اُنہیں بہرحال اپنے مطالبات میں لچک پیدا کرنی ہو گی۔