واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا کی طرف سے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات ختم کیے جانے پر پاکستان میں تشویش ہے لیکن اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ یہ تعطل عارضی ہے اور بات پھر سیاسی حل کی طرف جائے گی۔
دفاعی تجزیہ نگار سابق میجر جنرل اعجاز اعوان کہتے ہیں، ’’میرے خیال میں دونوں فریق مذاکرات پر واپس آئیں گے کیونکہ صدر ٹرمپ فوجوں کو نکالنا چاہتے ہیں۔ لیکن پینٹاگون، پومپیو اور کچھ اور عناصر اس کے حق میں نہیں۔ بھارت اور افغان حکومت بھی مذاکرات کو ناکام بنا نا چاہتے ہیں کیونکہ اس معاہدے سے فائدہ پاکستان، طالبان اور امریکا کو ہونا ہے۔‘‘
افغان تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسفزئی بھی اس بات چیت کے خاتمے کو عارضی سمجھتے ہیں۔ ”میرے خیال میں فریقین کو واپس مذاکرات کی طرف آنا پڑے گا کیونکہ بات کافی آگے جا چکی ہے۔ کئی امور طے ہو چکے ہیں۔ میرے خیال میں امریکا مزید کچھ مطالبات رکھنا چاہتا ہے اور اسی لیے مذاکرات میں تعطل آیا ہے۔‘‘
رحیم اللہ یوسفزئی کے خیال میں بظاہر اس کا امکان نہیں۔ ”میرے خیال میں فوجی ایکشن کا تو امکان نہیں لیکن پاکستان سے یہ کہا جائے گا کہ وہ طالبان رہنماؤں کو گرفتار کرے۔ زیادہ تر طالبان تو چلے گئے ہیں لیکن جو تھوڑے بہت ہیں یا ان کے رشتے دار ہیں، ان کی گرفتاری کا مطالبہ ہو سکتا ہے۔ ‘‘
معروف دانشور ڈاکڑ سید عالم محسود کا کہنا ہے کہ پاکستان پر طالبان کی حمایت کا پہلے ہی الزام تھا اور ملا ہیت اللہ کے بھائی کی ہلاکت کے بعد تو یہ بات اور واضح ہوگئی ہے کہ اسلام آباد کس کو سپورٹ کرتا ہے۔ ”کافی لوگوں نے اس بات پر سکھ کا سانس لیا ہے کہ یہ معاہدہ نہیں ہوا کیونکہ اس معاہدے سے افغانستان پھر طالبان کے ہاتھوں میں چلا جاتا۔‘‘
واضح رہے کہ مذاکرات کی سربراہی کرنے والے ملا عبدالغنی برادر ایک طویل عرصے تک پاکستان کی قید میں رہے۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اسلام آباد کے ہمدرد ہیں لیکن یہ بھی تاثر ہے کہ طالبان پاکستان کے اتنے زیراثر نہیں جتنا پہلے ہوا کرتے تھے۔
لیکن معروف سیاست دان اور سابق وفاقی وزیر میرحاصل بزنجو کے خیال میں صدرٹرمپ کا فیصلہ پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ، ”اگر پاکستان سے کہا جائے گا کہ وہ طالبان رہنماوں یا ان کے رشتے داروں کو گرفتار کرے تواس کے پاس نہ کہنے کی گنجائش نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف اور دوسرے ادارے بھی پاکستان پر دباو ڈالنے کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔‘‘
انہوں نے خبردار کیا کہ، ”اگر افغانستان میں لڑائی بڑھی تو قبائیلی علاقوں اور بلوچستان میں بھی انتشار بڑے گا۔ لہذا ہمیں یا تو طالبان کو مذاکرات پر لانا ہوگا یا پھر بین الاقوامی برادری کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا ورنہ ہمارے مسائل بہت بڑھیں گے۔‘‘