المیزان، شیر دل، زلزلہ، راہ حق، راہ راست اور راہ نجات کے بعد ضربِ عضب۔ مذاکرات کی آخری قسط شاید کراچی ائیر پورٹ حملہ تھا۔اس ”پاکستانی نائن الیون”نے سب کو ایک دم ”ایک پیج” پر لا کھڑا کیا اور پھر تاخیر سے ہی سہی فیصلہ بہر حال ہو گیا اور اس پر عمل کا آغاز بھی جو اب تک خاصی کامیابیاں سمیٹ چکا ہے۔ یقینا یہ ایک خوش آئند فیصلہ ہے کیونکہ ” دل ہو مقتل میں تو پھر سر نہیں دیکھا جاتا سرداری ہے بھی تو سرہی پر موقوف کہ سر کا تاج ہے۔
تاج کا تعلق تو براہ راست سر کے ساتھ ہوتا ہے ۔سجتا بہر حال اسی کو ہے جوسچ کی خاطرڈٹ جائے چاہے سر تن سے جدا کر کے دار …پر ہی کیوں نہ لٹکا دیا جائے۔کہ یہ سر کٹ تو سکتا ہے ، رب کے سوا کسی کے آگے جھک نہیںسکتا ۔ اطلاعات یہی ہیںکہ فوج تاخیر نہیں چاہتی تھی۔ مذاکرات کا ”آخری موقع ”بھی نیم دلی سے مانا گیاکہ جانتے تھے یہ لاتوں کے بھوت ہیں۔پھر بھی صبر کیا گیااور مذاکرات کی حمایت کی گئی۔مقصد ن لیگ ،تحریک انصاف اور جماعت اسلامی اور کچھ مذہبی جماعتوں کو مطمئن کرنا اور آئینہ دکھانا تھا۔ن لیگ کو تو شایداب” عقل”آہی گئی ہے ۔ تحریک انصاف نے البتہ دبا دبا احتجاج کے بعد حمایت کا اعلان کر دیا ۔جماعت اسلامی اور جمعیت نے حسبِ توقع ،قومی اسمبلی کی قرار داد کی حمایت نہیں کی(کل قیام پاکستان کی مخالفت نہ کی اورآج استحکام پاکستان کی حمایت سے گریزاں ہیں، لگتاتاریخ سے کوئی سبق نہیں لیا )باقی رہے مولانا سمیع الحق تو وہ اپنے بچوں کے خلاف آپریشن کی حمایت شاید قیامت تک نہ کر پائیںکہ جانتے ہیں جس دن حمایت کی ”قیامت”واقعی ٹوٹ پڑے گی۔جماعت ،جمعیت اور اسی قبیل کی دیگر مذہبی جماعتیںآپس میں تمام تر اختلافات کے باوجودطالبان کی حمایت پر یکسو بھی ہیں یک زبان بھی اور یک جان بھی۔واقعی یہ جان بڑی ظالم چیز ہے۔
خطے میں دہشت گردی کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ایک نام فوراًذہن میں آئے گا ۔جی ہاںوہی جس کے لئے ہماری بعض مذہبی جماعتیں ”ضربِ مومن …ضرب ِ حق”کا گمراہ کن نعرہ بلند کرتی رہی ہیں ۔ ضیا ئی آمریت کو ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دور کہنا بے جا نہ ہوگا۔اس دور کی تمام سوغاتوں کو اگر ایک جملے میں بیان کیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں ”انتہا پسندی ،شدت پسندی اور تعصب کا عہدِ زریں”۔ایک ایسا ملک جسکا ایک بازو دشمنِ دیرینہ نے کاٹ کر الگ کر دیا ہوکیا اسے” ہوس ملک گیری ”زیب دیتی ہے۔جس کا اپنا گریبان دشمن کے ہاتھ میں ہوکیا اس کے لئے یہ مناسب تھا کہ وہ دوسروں کے پھڈے میں ٹانگ اڑاتا ۔دوسروں کا ناک صاف کرانے کیلئے رومال اٹھائے اٹھائے پھرنا کیا اس شخص کے لئے موزوں تھا کہ جس کے اپنے بچے کی ناک ہر وقت بہتی ہو ۔دوسروں کو گند صاف کرنے والے اپنی فتح کے ترانے گاتے ہوئے گھر لوٹے تو انکا اپنا گھر رُوڑھی(فلتھ ڈپو)بن چکا تھا۔اور آج اسی رُوڑھی کے تعفن سے دہشت گردی کی وبا پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔یہ آپریشن کلین جس کے لئے ناگزیر تھا۔
یہ میرے کالم کا خلاصہ ہے جو میں نے ضربِ عضب کے حوالے سے لکھا۔لیکن افسوس اسے پل پل بدلتی ،ملکی سیاسی صورت حال اور پنجاب حکومت کی جلد بازی نگل گئی۔لاہور میں جو کچھ ہوا وہ جتنا قبیح تھا اس سے کہیں زیادہ کریہہ انظر وہ منظر تھا کہ جس میں اس سانحے کے ماسٹر مائینڈمظلوم افراد کی ہلاکتوں پر پولیس کا دفاع کرتے پائے گئے ۔کتنے بڑی ستم ظریفی ہے کہ صاحبان ِ قلم و قرطاس کے الفاظ جوحکومت اور پاک فوج کے لئے لکھے جانے تھے ،گذشتہ چند روز سے رخ بدل کر لاہور سانحے کی سمت پھر گئے ہیں۔کتنا بڑا معجزہ ہے کہ فوجی آپریشن صرف چند دنوں میں نان ایشو بن کر رہ گیا ہے۔یقینا اس کا کریڈٹ بھی پنجاب حکومت کو ہی جائے گا کہ جنہوں نے اپنی شبانہ روز کاوشوں سے ایک ایسا یادگار کارنامہ سر انجام دے ڈالا کہ آج پوری قوم ان سے نالاں ہے اور ہر سیاسی جماعت ان کے مقابل صف آراء ۔ایسی ہم آہنگی اورملی یکجہتی تو فوجی آپریشن پربھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ایک ایسے وقت میں جبکہ شری حکومت کو ملکی سطح پر ہر پاکستانی کی غیر مشروط درکار تھی ،ایک سنگین غلطی نے انہیں یکسر تنہا کر دیا ہے۔
Nawaz Sharif
مارے بندھے فوجی آپریشن کی حمایت کرنے والی پارٹی کی اپنے مخالفین کے خلاف یہ” شب خون ”اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ گیا ہے یہ فرض کرنے سے پیشتر کہ کسی مہذب معاشرے میں ایسا کوئی المیہ ہوا ہوتا تو اب تک کیا کچھ ہو چکا ہوتا،ہمیں یہ فرض کرنا ہوگا کہ کیا ایسا کوئی واقعہ وہاں رونما ہو بھی سکتا تھا؟؟؟دوسروں کو چھوڑیں ،پاکستان کی بات کرتے ہیں۔کیا آپ نے پنجاب میں اس طرز کی کوئی سفاکی پہلے بھی کبھی دیکھی ہے؟ میں اس واقعے کی لائیو کوریج سے شکر ہے محروم رہا،لیکن بلاخوف ِ تردید کہہ سکتا ہوںکہ اس طرز کا کوئی واقعہ راقم نے کبھی نہیں دیکھا ۔خدا کی پناہ ! سفا کی کے مناظر دیکھ کر لگتا ہے جیسے کوئی ملیشیا موقع پاکرکسی د شمن ملک کی نہتی عوام پر شب خون مارنے آنکلی ہو۔ کسی کام کے لئے ٹائمنگ کلیدی حیثیت رکھتی ہے ۔جیسا کہ اس واقعے کی ٹائمنگ ۔ماسٹر مائینڈ نے ،جو یقینا شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار تھا،شریف برادران کے لئے فرار کی کوئی راہ نہیں چھوڑی ۔اب یا تو کھلے بندوںمعافی مانگیںاور اپنی لا علمی کی بجائے نااہلی کا اعتراف کرتے ہوئے غیر جانبدا رانہ تحقیقات کے نتیجے میں مجرموں کو قرار واقعی سزا دیں یا پھر استعفیٰ دیکر چپکے سے گھر کی راہ لیں۔دوسرا آپشن خارج از امکان ہے۔ہاں پہلے آپشن پر عمل ہو سکتا تھا ۔لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ اس پر عمل کے نتیجے میں بات کے دور تک چلے جانے کا امکان ہے۔اور پردہ نشین یہ سب ہونے نہیں دیں گے۔اور اس کے آثار ابھی سے نظر آنے بھی لگے ہیں ۔کیاآپ کو شریف برادارن اورن لیگ کے دیگرسرگرم لیڈران کی باتوں اور باڈی لینگویج میں فرق واضح نظر نہیں آتا؟؟؟کیا آپ ”گلوبٹ” کو بھول بیٹھے ہیں؟یہ کردار اچانک سامنے آیا اور یکایک مرکزی اہمیت اختیار کر گیا۔
اس کی اچانک انٹری نے کہانی کا رخ بدل کر رکھ دیا۔اگر کسی کو ”کراس فائرنگ” کے حوالے سے کوئی ابہام تھا بھی تو گاڑیوں پر اس وحشی کے تشدد نے دور کر دیا۔پہلے پہل انکار کیا گیا کہ اس کا پولیس یا ن لیگ سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔پھر پولیس کی جانب سے اعتراف پر اسے ”الو بٹ ”کہہ کرغصہ نکالا گیا۔جب بات کچھ اور بگڑی تو گلو بٹ بیچارے کو بطور چارہ استعمال کرنے کی پالیسی پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا۔ آپ کو ہر دوسرے کالم میں اسی کا ذکر دیکھ کر اگر کوئی حیرت نہیں ہوئی تو مجھے آپ کے حیران نہ ہونے پر حیرت ہے۔ایک کٹھ پتلی ،ایک آلہ کار ،ایک اسٹنٹ مین کی اتنی پذیرائی کیا واقعی حیران کن امر نہیں؟اس بیچارے کو قربانی کا بکرا بنانے کی ساری تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔اور اس کی ٹھکائی کے بعد تو کچھ آوازیںاس کو مظلوم ثابت کرنے کے لئے بھی اٹھنے لگی ہیں ۔سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس میں اسے قادری جی کا جیالا دکھایا گیا ہے۔جس نے سر پر عوامی تحریک کا جھنڈا باندھ رکھا ہے جس کی شرٹ پر بھی اپنی اسی پارٹی کا نام لکھا صاف دکھائی دیتا ہے۔خفیہ ہاتھ اس بیچارے کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں ۔جبھی تو ہرسو اسی ایک آدمی کے چرچے ہیں ۔تاکہ اس کہانی کے مرکزی ولن کے طور پر اس کا نام ہر جگہ گونج اٹھے اور اس پُتلی کو نچانے والے ہاتھوں کی پتلی حالت کو کچھ ہر ممکن سہارا دیا جا سکے۔لیکن یہ معاملہ اتنی آسانی سے ٹلنے والا ہرگز نہیں ۔قادری صاحب اسے سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے کے موڈ میں ہیں۔
اب قوم نے یقینا جان لیا ہوگا کہ کیوں خادم اعلی ٰ لہک لہک کر گایا کرتے تھے ”ایسے دستور کو میں نہیں مانتا ،میں نہیں جانتا ”۔ظاہر ہے ایسی ریاستی دہشت گردی کی اجازت تو دنیا کا کوئی دستور نہیں دیتا،کہ نہتے عوام پر سیدھی گولیاں برسائی جائیں ،گاڑیوں کی توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی جائے اوربجائے شرمندہ ہونے کے ،تین ہزار سے زائد افراد کے خلاف پرچہ کٹا دیا جائے۔اس واقعے نے یہ بات بھی ثابت کر دی کہ ایک سیاسی جماعت اور مفاد پرست کاروباری ٹولے میں بڑا واضح فرق ہوتا ہے۔کیا آپ کو پیپلز پارٹی کے گزشتہ ہنگامہ خیزدور اقتدار میں، اس طرزکا کوئی ایک بھی واقعہ دیکھا ؟ مجھے جانے کیوں رہ رہ کر پنڈی کے شیخ جی کا جملہ یاد آتا ہے”ان کو خطرہ کسی اور سے نہیں ،اپنے بھاری مینڈٹ سے ہے۔