نئی دہلی (جیوڈیسک) بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ ان کا ملک تنہا امن کے راستے پر نہیں چل سکتا اور ان کے بقول اس کے لیے پاکستان کو بھی پیش رفت کرنی ہو گی۔
نریندر مودی نے منگل کو نئی دہلی میں ہونے والی ایک کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ اگر پاکستان نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کی راہ پر چلنا ہے تو اس کے لیے پاکستان کو دہشت گردی کی راہ کو ترک کرنا ہو گا۔
ادھر سوئیٹزر لینڈ کے شہر ڈیوس میں موجود پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب معاملات پرامن طریقے سے حل کرنا چاہتا ہے۔
انھوں نے بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری اس کا نوٹس لے۔ پاکستان کا موقف رہا ہے کہ وہ خود دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔
بھارت اور پاکستان ایک دوسرے پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں، تاہم دونوں ہی ملک ایسے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
’’اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ دونوں ملک اس کے لیے مشترکہ ایجنڈا ترتیب دیتے ہیں اور اس مشترکہ ایجنڈے کی بنیاد پر گفتگو شروع ہوتی ہے لیکن اگر ایک فریق یہ سمجھے کہ وہ ایجنڈا طے کرے گا یا اس کی شرائط پر دوستی ہو سکتی ہے تو میرا نہیں خیال، بین الاقوامی سیاست میں دوستی ایسے ہو سکتی ہے۔‘‘
بھارت چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے اور منگل کو نریندر مودی نے چین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ علاقائی روابط کو بہتر کرنے کے لیے خود ( ایک دوسرے ملک کی) سالمیت کا احترام ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین اور بھارت جیسے دو بڑے ملکوں کے درمیان اختلاف کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری اور خطے کے امن و ترقی کے لیے ایک دوسرے کے مفادات اور خدشات کا احترام ضروری ہے۔
پاکستان تاریخی طور پر چین کے انتہائی قریب رہا ہے اور حالیہ سالوں میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے تحت پاکستان میں ہونے والے سرمایہ کاری کی وجہ سے یہ تعلقات نہایت اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔
بھارت چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ راہداری کشمیر کے ایک ایسے علاقے سے گزرتی ہے جو متنازع ہے، تاہم اسلام آباد بھارت کے اس اعتراض کو مسترد کر چکا ہے۔
گزشتہ سال جنوبی ایشیا کے دو جوہری ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے۔ گزشتہ ستمبر کے اواخر میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارتی فوج کے ایک کیمپ پر ہونے والے حملے کے بعد یہ تعلقات مزید تناؤ کا شکار ہو گئے۔
بھارت نے پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ بھارتی فوج کے کیمپ پر حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں کو پاکستان کی معاونت حاصل تھی، تاہم اسلام آباد اس الزام کو مسترد کرتا ہے۔