مذاکرات کا کھیل

Taliban

Taliban

گزشتہ چار ماہ سے زائد عرصہ سے ہر روز کی خبروں میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کی خبریں نمایاں شہ سُرخیوں کے ساتھ، ایک مرتبہ جب ایف سی کے ٢٣ مغوی جوانوں کو قتل کیا گیا جن کا شدید رد عمل ہوأ اور بس….یا پھر مختصر وقفہ کے ٤،اپریل کو مذاکرات پھر شروع ہوے…..،اسوقت تک کی خباری اطلاعات جو ہم تک پہنچ رہی ہیں ہر خبر میں یہی کہا جاتا ہے مذاکرات کامیا بی کی طرف بڑھ رہے ہیں بلکہ کامیابی کی دہلیز پر مگر اندر کیا ہے کسی کو علم نہیں…. البتہ عنقرب خوش خبری ملے گی کی نوید دی جاتی ہے مگر خوش خبری کیا ہوگی ابھی تک پردے میں ہے کب ملے گی کسی کوخود بھی علم نہیں ….. ١٩ جنوری ،بنوں میں بم حملے میں ٢٣فوجی جوان شہیدہوئے فوج پر کیا جانے والا یہ حملہ اب تک کئے جانے والے حملوں میں سب سے زیادہ ہلاکت خیز تھا. ،طالبان سے مذاکرات پر تبصرہ کرتے ہوئے گڑھی خدا بخش میں٤،اپریل کو بلاول بھٹو زرداری نے کہا کے آنکھوں والے اندھوں سے راستہ پوچھ رہے ہیں

حکومت نے بڑی تعداد میں طالبان قیدی رہا کر دئے ہیں مزید رہا کرنے کے لئے غور و فکر ہو رہا ہے ،ایک اور خبر پر غور فرمائیں ،جیش العدل نامی تنظیم جس کے پاس ایرانی سرحدی محافظ تھے ٤،اپریل کو انہیں ایرانی حکام کے حوالے کردیا،ہمارا دفتر خارجہ کا کہنا کو یہ پاکستان میں نہیں لائے گئے اگر پاکستان میں نہیں تو پھر….اِس سے ایران کے ساتھ …..،اور اگر تو طالبان واقعی مذاکرات میں سنجیدہ ہوتے تو خیر سگالی کے طور پر تین مغوی سابق وزیرآعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے ،شہید سلیمان تاثیر کے بیٹے اور پروفیسر اجمل خان کو رہا کر دیتے مگر …..،اپنے ساتھیوں کی رہائی کی بات کرتے ہیں

چار اپریل کی ملاقات کے بعد طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ فوج کی طرف سے متعدد طالبان قیدیوں کی کلیرنس کے باوجود حکومت نے رہا نہیں کئے ،حکومت ہمیں بتائے تو طالبان سے قیدیوں کی رہائی کا کہیں گے ،پروفیسر صاحب کا یہ بیان انتہائی قابل فکر ہے اِ س سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ طالبان کا اٹوٹ انگ ہیںصرف پروفیسرابراہیم اور اسکی جماعت ہی نہی بلکہ تمام مذہبی جماعتیں اور جہادی گروپ طالبان کی پشت پر ہیں ۔٢٦ جنوری کو دفاع پاکستان کونسل کی سپریم کونسل نے حکو مت کو متنبہ کیا فوجی اپریشن کے نام پر بے گناہ اور معصوم لوگوں کے قتل عام سے گریز کیا جائے،سپریم کونسل کا مطلب ہے جو ؤلوگ بم دھماکوں اور خود کش حملوں مارے جاتے ہیں وہ گناہگار اور واجب القتل ہوتے ہیں جیسے مستونگ میں زائرین کو نشانہ بنایا گیا ……. ، ٢٩ جنوری کو پہلی مرتبہ شمالی وزیرستان کی ریاست پر فضائی کاروائی کی تو طالبان نے فوراً مذاکرات کے پتے کھیلنے شروع کئے

Ali Haider Gillani

Ali Haider Gillani

تب سے مذاکرات کا کھیل جاری …..ِ،اور اب تازہ خبر یوسف شاہ کے حوالے سے ٧اپریل کے ایک اخبار نے دی کہ طالبان ہما رے بھائی ہیں دہشت گرد نہیں……، ٧، اپریل کو ہی دوسرے اخبانے خبردی ہے ،طا لبان بھائیوں نے خیر سگالی کے طور پر پاکستانی جنگجو شہبازتاثیر،علی حیدر گیلانی اور پروفیسر اجمل خان کو اپنے ایک ہزار طالبان کی رہائی کے بدلے رہا کرنے کی پیش کش کی ہے اِس پر حکومت کاکیا ردِعمل ہو گا یہ ابھی آئے گا ،اب تک کے کھیلے گئے پتوں میں کامیاب پتا ہے امید ہے جہاں پہلے ہی حکومت نے لاتعداد طالبان رہا کر دئے ہیں یہ ہزار طالبان بھی کسی پس و پیش کے رہا کر دئے جائیں گے ،۔لمحئہ فکر یہ ہے ؟کیاہمارے وہ ادارے اورایجنسیاں جن پر اُس ٥٤ فیصدغریب جو غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبورہیں سے بھی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جو ان پر سالانہ کروڑوںڈالر خرچ کیا جاتا،

اور امریکا ،برطانیہ میں تربیت بھی حاصل کرتے ہیں کیا یہ بھی بے خبر ہیں کہ طالبان لبادے میں کون لوگ ہیں جو حکومت کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں عوام اور عوامی مقامات پر حملے ،دھماکے تو دہشت گرد کاروائیاں ہوسکتی ہے مگر فوج پر حملے ہر گز ہرگز دہشت گرد کاروائی کہہ کر نظر انداز نہیں کئیس جاسکتے۔جبکہ ہر خود کش حملے اوردھماکوں کی ذمہ داری ہمیشہ اعلانیہ طالبان نے قبول کی ،اور آج اسلام آباد فروٹ منڈی میں،دھماکا جہاں ٢٤ قسم کے مزدور کہے جاتے ہیں جاں بحق ہوئے اور ١١٦ زخمی ہوئے جس کی زمہ داری یونائٹڈ بلوچ آرمی نے قبول کی مگر وزیر داخلہ نے کہانے اسکی کڑیاں کہیں اورملتی ہیں ،سبی اسٹیشن پر جعفر ایکسپریس میں دھماکے کی زمہ داری بھی یو نائٹڈ بلوچ آرمی نے قبول کی، توطالبان ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ان دھماکوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا بے گناہوں کو مارنا شرعاً حرام ہے ،کیا بات ہے کل تک کئے گئے دھماکوں میں جو مارے جاتے جن کی ذمہ داری اعلانیہ یہی شاہد اللہ شاہد قبول کرتے تب یہ عوام کا قتل عام شرعی تھا،

قرائین سے یہ واضح ہورہا ہے کہ طالبان انتہائی ہوشیاری سے اپنے پتے کھیل رہے ہیں،اور جب تک پاکستان بند گلی میں پھنس نہیں جاتا اور یہ اپنی تیاری مکمل نہیں کرلیتے چھوٹے چھوٹے مطالبے کر کے حکومت کو الجھائے رکھیں گے،اور جب اِن کی پشت پر بیٹھی پاکستان دشمن قوتیں بھی اپنا ہوم ورک مکمل کر لیں گی ،کیونکہ طالبان کی طرف سے کئے حملے تو پہلے ہی جماعت اسلامی ،جماعت الدعوة،جے یو آئی (س) (ف) اور دیگر طالبان حمائیتیوں نے ہمیشہ سیاسرائیل، بھارت اور امریکا کے کھاتے میں ڈالے ہیں اور یہ اک سچائی بھی ہے یہی نہیں اور بھی خفیہ خاموش دشمن …… اور پاکستان کے کوئی کاروائی باہر سے نہیں اندر سے آسان ہوگی، پہلے پاکستان کا ایک بازو کاٹ دیا وہ بھی ایسی ہی اندرونی سازش تھی

پھر طالبان کو گرین سگنل دیا جائے گا ، طالبان اپناآخری پتا کھیلیں گے اوروہ مطابہ پیش کر دیں گے جس سے ایٹمی طاقت کے حامل پاکستان کی جڑیں تک ہل جائیں گی تب پاکستان کے لئے نکلنے کی راہیں مسدود ہو چکی ہونگی اوریہ ایٹم بھی تحفظ نہ دے سکے گا ،یاد ہو کہ سویت روس کے پاس تو ایٹمی ہتھیاروں کے انبار تھے مگر وہ بھی اُس کا تحفظ نہ کر سکے…. ،،اُس وقت حکومت کے پاس دو راستے ہوں گے اُنکا مطالبہ تسلیم کر کے خود ہی … اگر طاقت کا استعمال کیاگیاجس کا وقت گزر چکا ہوگا جو نہ صرف پاکستان کے خلاف بھیانک سازش گی بلکہ حالات اِس نہج پر پہنچ چکے ہونگے جن سے یہ خدشہ بھی ہے

کہ تیسری عالمی جنگ بھی پاکستان ہی سے طالبان کے زریعے اندر سے شروع کرائی جائے گی اور……، طالبان اور ملک میں طالبان کے حمائتی پاکستان دشمن قوتوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر پاکستان ہی کے خلاف سازش میں شریک ہیں اور دن بہ دن ملک کو کمزور کر رہے ہیں وہ یہ بھول جائیں جو ایٹم کو پاکستان کے تحفظ کی ضمانت سمجھتے ہیں ..اب بھی وقت ہے حکومت ،مذاکر ات کے جال سے نکلے کہ عوام کی اکثریت مذاکرات کی حامی نہیں ، بلکہ اپریشن کے حامی ہیںتاریخ میں کبھی بھی یہ نہیں ہوأ کہ باغیوں سے مذاکرات کئے گئے ہوںیہ تو عجب ہے کہ پاکستان کے پچاس ہزار سے زائد معصوم شہریوں کے قاتلوں سے ہاتھوں ہاتھ ملانے ….اورطالبان اپنے ایجنڈے کو لپیٹ دیںیہ سوچنا بھی پرلے درجہ کا احمقانہ پن ہوگا

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر: ع.م.بدرسرحدی