تحریر: محمد عتیق الرحمن یورپین فوجی اتحاد ”نیٹو” سے کو ن واقف نہیں ! کسی بھی جگہ یورپ یاامریکہ کو خطرہ لاحق ہوتو اسی اتحاد کی بدولت پورا یورپ اپنے اتحادی ملک کی پشت پر کھڑا ہوتا ہے بلکہ خطرہ لاحق کرنے والے ملک پر حملہ بھی کردیا جاتا ہے ۔ ایسا ہی ایک فوجی اتحاد عالم اسلام کے 34 ممالک نے سعودی عرب کی قیادت میں تشکیل دیاہے ۔ فرق اس میں یہ ہے کہ یہ اتحاد عالم اسلام کو درپیش مسائل وخطرات کے پیش نظر بنایا گیا ہے اور خصوصاََ حرمین شریفین کو جو حالیہ خطرات لاحق ہوچکے ہیں ۔
ان خطرات سے نمٹنے کے لئے اس اتحاد کو ہم ایک پیش خیمہ کہہ سکتے ہیںکہ عالم اسلام متحد ہونے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے ۔عالم اسلام ایک لمبے عرصے سے کسی ایسی قیادت سے محروم ہے جو عالمی سطح پر مسلمان ملکوں کے درمیان اتحاد واتفاق اور امت مسلمہ کا صحیح معنوں میں مفہوم دنیا کے سامنے رکھ سکے ۔اس عالمی اتحاد کودیکھتے ہوئے اہل خرد اس بات کی امید واثق کررہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں عالم اسلام صحیح معنوں میں متحد ہوجائے گا ۔
یمن میں منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کرنے اور سرزمین حرمین پر حملے کے ناپاک عزم کا اعلان کرنے والے حوثیوں کے خلاف ”فیصلہ کن طوفان” اور” بحالی امید” کے نام سے دو کامیاب فوجی آپریشنوں کے بعد سعودی عرب کا وقارپوری دنیا میں بڑھاہے اور دنیا کو معلوم ہوا ہے کہ حرمین کی طرف بڑھنے والے ہا تھ کاٹنے کی صلاحیت مسلمانوں میں اب بھی اتم موجود ہے ۔اس اسلامی فوجی اتحاد کا مقصد اسلامی ممالک میں جاری دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشنز کومزید منظم کرنے اور نتیجہ خیز بنانا ہے جبکہ کسی بھی اسلامی ملک کو باغی عناصر سے ممکنہ خطرات کے وقت مذکورہ ملک کے دفاع کو یقینی بناکر منتخب حکومت کو گرنے سے بچانا ہے ۔
Saudi Arabia
الشرق الاوسط کے مطابق اسلامی فوجی اتحاد کا اعلان سعودی عرب میں مسلمان ملکوں کے اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد منگل کوسعودی وزیردفاع اور نائب ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے ایک پریس کانفرنس میں کیا ۔اس سے قبل اجلاس میں یمن جیسی صورت حال رونما ہونے اور اس کے نتیجے میں پیداہونے والی انارکی وبدامنی کی روک تھام کے لئے اسلامی ملکوں کا عسکری سطح پر ایک دوسرے سے تعاون کویقینی بنانے پرزور دیا گیا ۔
الشرق الاوسط کے مطابق رکن ممالک میں سے کئی دہشت گردی کے خلاف اہم کردار اداکررہے ہیں ۔ اس اسلامی اتحاد میںسعودی عرب کے علاوہ کویت ،قطر ، متحدہ عرب امارات، بحرین،پاکستان ، بنگلہ دیش، ترکی، چاڈ، تیونس،توگو، بینن، سوڈان، صومالیہ، سینگال، فلسطین، گنی، گبون، مراکش، مصر، مالی، مالدیپ، لیبیا، موریطانیہ، نائیجر، نائیجیریا، یمن، کویت، کمروز، جبوتی، لبنان، سیرالیون اور اردن شامل ہیں ۔جمہوریہ انڈونیشیا سمیت 10دوسرے ممالک نے بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسلامی ممالک کے اتحاد میں شمولیت کا عندیہ دیا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مانیٹرنگ کے لئے مشترکہ کنٹرول روم سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں قائم کیا جائے گا۔اس کنٹرول روم میں نہ صرف مانیٹرنگ کی جائے گی بلکہ دہشت گردانہ کاروائیوں سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی وضع کرتے ہوئے عملی اقدامات بھی کئے جائیں گے۔
سعودی سرکاری نیوز ایجنسی ”واس” کے مطابق ریاض میں ہونے والے اجلاس کے نتیجے میں قائم اتحاد کی بنیاد قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ کوبنایا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ”نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی معاونت کرو”۔اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ دہشت گردی، انسانیت کے خلاف وحشیانہ جرائم اور فساد فی الارض ناقابل معافی جرائم ہیں جونہ صرف انسانی نسل کی تباہی کا موجب بن رہے ہیں بلکہ بنیادی حقوق کی پامالی اور انسانی عزت واحترام کے لئے بھی خطرناک ہیں ۔
Terrorism
دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے تمام اسلامی ممالک سعودی عرب کی قیادت میں متحد ہیں اور اس کو ختم کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا جائے گا ۔عرب میڈیا کے مطابق اسلامی فوجی اتحاد کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے اتحاد نے یمنی صدر منصور عبدربہ منصور کی درخواست پر عمل کرتے ہوئے گذشتہ کئی ماہ سے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف جاری کاروائیاں روکنے کا اعلان کیا ہے کیونکہ سویٹزرلینڈ میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں یمنی فریقوں کے درمیان مذاکرات شروع ہوگئے ہیں ۔یہ مذاکرات سات روز تک جاری رہیں گے ۔مذاکرات میں یمن کی منتخب حکومت کے نمائندے ،معزول صدر علی عبداللہ صالح اور حوثی باغیوں کے نمائندے شریک ہیں ۔
اس وقت عالم اسلام ہر طرف سے خطرے میں گھر ا ہوا ہے ۔ایک طرف سے عالم کفر مسلمان ملکوں پر حملے کرکے تباہ وبرباد کررہاہے تو دوسری طرف کچھ عقل کے اندھے حکمران اور کچھ کم علم وکم فہم لوگ اسلام کے نام پر مسلمانوں کا ہی خون کررہے ہیں اور فساد فی الارض کا موجب بن رہے ہیں ۔پاکستان ،سعودی عرب اور ترکی سمیت دنیا کے اہم مسلم ممالک اس وقت اندرونی خلفشار کا شکا ر ہیں اور دشمنان اسلام تکفیریت اور خارجیوں کوپروان چڑھا کر مسلم ممالک کو باہمی دست وگریباں کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے ۔ سعودی عرب میں مساجد ،امام بارگاہوں میں خودکش حملے ہوں یا پھر پاکستان میںافواج پاکستان پر ،عسکری وسول اداروں پر یا پھر پبلک مقامات پربم حملے ہوں یاپھر اسی قسم کے حملے کسی بھی مسلم ملک میں ان سب کے پیچھے دشمن اسلام کا ہی ہاتھ کرفرما نظر آتا ہے ۔ داعش جیسی جماعتیں اسلام کے نام پر ایک بد نما دھبہ ہیں ۔
Islam
حالانکہ عالم اسلام کا کوئی بھی قابل ذکر عالم ان جیسی حرکات کرنے والوں کو اسلام کی نمائندہ نہیں کہتا لیکن مغربی میڈیا انہیں مسلمان گردانتے ہوئے اسلام اور نہتے مسلمانوں پر ظلم وجبر کررہاہے۔فرانس جیسے حملے کرکے عالم اسلام کی مشکلات میں مزید اضافہ کرنے والا یہ ٹولہ عالم اسلام کے متحد نہ ہونے کی وجہ سے اسلام کا چہرہ داغدار کررہا تھا ۔موجودہ اسلامی ملکوں کا اتحا د جہاں حرمین شیریفین کا دفاع کرنے کی کوشش ہے وہیں مسلمان ملکوں میں پھیلی ہوئی بدامنی ودہشت گردی کے خلاف ایک متحدہ کوشش ہے ۔
گو اس سے بھی پہلے عالم اسلام کو متحد کرنے کی کئی کوششیں ہوچکیںہیں لیکن میرے علم کے مطابق اسلامی فوجی اتحاد کی یہ پہلی کوشش ہے جس میں رکن ممالک میں درپیش خطرات سے نمٹنے کے لئے تما م مسلمان ممالک اس کے ساتھ ہوں گے ۔ اس طرح دنیا میں طاقت کا توازن بھی قائم رہے گا اور انسان کے بنیادی حقوق کی حفاظت بھی اسلام کے مطابق ہوسکے گی ۔مستقبل قریب میں عالم اسلام کا ایک ایسا اتحاد بننا ممکن دکھائی دے رہاہے جس میں تمام اسلامی ممالک اپنے خدشات وجھگڑے بغیر کسی بیرونی قوت کے حل کرسکیں گے ۔ اور عالم اسلام علامہ محمداقبال کے اس شعر کی عملی تصویر بن کر ابھرسکے گا ۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر