دنیا میں بہت کم شخصیات ہوتی ہیں جن کی موت پر اقوام عالم اجتماعی سوگ مناتی ہیں۔ نیلسن منڈیلا کی دنیا سے رخصتی پر دنیا کا ہر باخبر شخص سوگوری اور دکھ کی کیفیت میں مبتلا مزاہب اور رنگ و نسل سے بالا تر ہو کر کسی فرد کیلیے اتنا پیار اور احترام تاریخ انسان کے بہت کم لوگوں کے حصے میں آیا ہے۔ عالمی رہمنا اور جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا نسلی تفریق کے حوالے سے اپنی جدوجہد کے زریعے دنیا بہر میں کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔
وہ 95 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ گزشتہ دو برس میں وہ پانچ بار ہسپتال گئے۔ انھیں پھیھڑوں میں انفیکش کا مرض لاحق تھا۔ وہ طویل عرصے سے زیر علاج تھے۔ منڈیلا کی وفات پر بہت سے اقوام کے پر چم سرنگوں ہیں۔ جنوبی افریقہ میں حصوصی عبادات جاری ہیں جبکہ دنیا بھر میں ان کی مغفرت کیلیے عبادات جاری ہیں۔
دنیا بھر کے رہنماؤں نے ان کو جرأت و عظمت کا پیکر قرار دیا ہے۔ نیلسن منڈیلا 18 جولائی 1918 کو جنوبی افریقہ کے گاؤں مویزو میں پیدا ہوۓ۔ وہ اپنے خاندان میں سکول جانے والے پہلے فرد تھے۔ شادی سے بچنے کیلیے وہ جوہانسبرگ چلے گئے اور افریقی نیشنل کانگرس جائن کر لی اور کانگرس کے یوتھ ونگ کو فعال کیا۔
Nelson Mandela
1952 میں وکالت کا امتحان پاس کیا اور پہلی سیاہ فام فرم بنائی جسے حکومت نے گوارانہ کیا اور 155 افراد سمیت غداری کا مقدمہ قائم کیا جو چار سال چلتا رہا۔ 1955 میں منڈیلا نے ونی مادی کیزیلا سے شادی کر لی۔ 20 مارچ 1960 کو پولیس کے ہاتھوں 69 افراد کے قتل پر منڈیلا نے مسلح ونگ قائم کیا اور زیر زمین چلے گئے۔
لیکن غیر قانونی طور پر ملک چھوڑنے کے الزام میں گر فتار کر لیا گیا اور سات ساتھیوں سمیت عمر قید کی سزا سنائی اور رابن نامی جزیرہ پر قید میں ڈال دیا گیا۔ جنوبی افریقہ کی نسل پریست حکومت کا جبر اپنے انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ جس پر دنیا میں رد عمل کا لاوا پھٹ پڑا۔ 1990 میں صدر ڈی کارک نے منڈیلا کی تنظیم ANC پابندی اٹھالی اور ستائیس سال کی قید کے بعد رہا کر دیاگیا۔
منڈیلا کو نسلی تفاوت کے خاتمہ پر امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ 1994 میں جنوبی افریقہ میں تمام نسلوں نے ووٹ ڈالہ اور نیلسن منڈیلا بھاری اکثریت سے جیت گئے۔ 2010 میں منڈیلا نے عوامی و سیاسی کو خیر باد کہا اور قوم کو پیغام دیا کہاب وقت آگیا ہے کہ توانا بازو اپنے لوگوں اور انکے حقوق کا بو جھ اپنے کندھوں پر منتقل کریں۔ قوم کی زمہ داری اب آپ کے ھاتھوں میں ہے۔
نسلی امتیاز میں فتح حاصل کر نے والے منڈیلا کی نجی زندگی بری چرح متاثر ھوئی۔ دنیا بھر کے سیاستدانوں سے رابطے کے باوجود ان میں سیاسی تڑپ زندہ تھی۔ سو سے زائد اعزازی ڈگریوں ، سڑکوں ، چوکوں اور عمارتوں کے نام اس عظیم النان سے منسوب ھیں۔ ڈاکڑ مبارک علی لکتھے ھیں لیبیا کے خلاف مھم میں منڈیلا نے کلٹن کو بھری محفل میں ٹوک دیا تھا۔
پاکستانی صدر ممنوں حسین اور وزیر اعظم نے تعزیتی پیغامات ارسال کئے ہیں۔ منڈیلا کی وفات کو عظیم سانحہ قرار دیا ہے۔ نیلسن منڈیلا نے اپنی جدوجہد کے زریعے دنیا کیلیے جو پیغام چھوڑا ہے۔ اسکا لب لباب ہے۔ انسان پیدائشی طور پر کسی سے نفرت نھیں کرتا نفرت کرنا اسے سکھایا جاتا ہے۔ والدین سکھاتے ھیں سکول سیکھاتا ھے میڈیا سیکھاتا ھے۔ ورنہ انسان کی فطرت تو محبت کرنا ھے۔