برطانیہ (جیوڈیسک) برطانیہ میں رہنے والے ایک نیپالی فوجی افسر کمار لاما گیارہ سال پہلے اپنے ملک میں عام شہریوں پر ٹارچر کرنے کے الزام سے بری ہو گئے ہیں۔
برطانیہ کے مشرقی سسیکس کے علاقے میں رہنے والے کرنل لاما اولڈ بیلی کی عدالت میں ٹارچر کے الزام کے تحت مقدمے کا سامنا کر رہے تھے۔
برطانوی جج جسٹس سوینی نے منگل کے روز جاری ہونے والے اپنے فیصلے میں ان کو باقاعدہ طور پر بری کر دیا۔ اس سے پہلے ایک جیوری نے اسی سال انھیں ٹارچر کے ایک الزام سے بری کر دیا تھا لیکن کراؤن پراسیکیوشن سروس نے ان پر از سرِنو مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔
کراؤن پراسیکیوشن سروس نےعدالت کو بتایا تھا کہ ان کے خلاف دوسرے الزام کے تحت مقدمے میں سزا دلوانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ دوبارہ مقدمہ نہ چلانے کی بنیادی وجہ شواہد میں میں پائے جانے والے مختلف نوعیت کے سقم ہیں۔
کرنل لاما پر الزام لگایاگیا تھا کہ انھیں نے آرمی بیرکوں میں قید دو عام شہریوں پر ٹارچر کا حکم دیا تھا۔ انھیں جنوری 2013 کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ جنوبی سوڈان میں اقوام متحدہ کی امن فوج میں تعیناتی کے دوران چھٹیاں منانے کے لیے برطانیہ آئے ہوئے تھے۔
ان پر ٹارچر کے دو الزامات کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا تھا اور انہوں نے گرفتاری کے بعد دو ماہ کا عرصہ ہائی سکیورٹی بیلمارش جیل میں گزارہ تھا۔
ان کے خلاف مقدمہ برطانیہ کے کریمینل جسٹس ایکٹ کی دفعہ 134 کے تحت قائم کیا گیا تھا جس کے تحت کسی بھی ملزم کے خلاف ایک برطانوی عدالت میں مقدمہ قائم کیا جا سکتا ہے چاہے جرم کا ارتکاب برطانیہ سے باہر کیا گیا ہو اور ملزم برطانیہ کا شہری بھی نہ ہو۔
گزشتہ سال مقدمے کو یہ کہہ کر ختم کر دیا گیا تھا کہ نیپالی مترجم نہیں مل رہے۔ کرنل لاما کے وکیل جوناتھن گرائمز نے کہا ہے کہ ان کے موکل کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ انھوں نے نہ تو ٹارچر کا حکم دیا اور نہ ہی اس جرم میں شریک رہے ہیں۔
کراؤن پراسیکیوشن سروس کےایک ترجمان نے کہا کہ یہ ایک غیر معمولی اور مشکل کیس تھا اور ان کا ادارہ جیوری کے فیصلے کا احترام کرتا ہے۔
یاد رہے کہ یہ اپنی نوعیت کا دوسرا مقدمہ ہے۔ اس سے پہلے ایک افغان جنگی کمانڈر فریادی زدران کو ٹارچر کے الزامات کے تحت 2005 میں سزا سنائی گئی تھی۔