نیپالی پارلیمان تحلیل کرنے کے خلاف عوام سڑکوں پر

Nepal Protest

Nepal Protest

نیپال (اصل میڈیا ڈیسک) نیپال میں حکمراں کمیونسٹ پارٹی کے دو دھڑوں میں تقسیم ہوجانے کے بعد صدر نے، وزیر اعظم کھڑگ پرساد اولی کی سفارش پر نیپالی پارلیمان کو تحلیل کردیا تھا۔ لیکن ہزاروں افراد اولی کی اس ‘بغاوت‘ کے خلاف سڑکوں پر اترآئے ہیں اور پارلیمان کو بحال کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں منگل کے روز دس ہزار سے زائد مظاہرین نے وزیر اعظم کھڑگ پرساد اولی کے دفتر کی طرف مارچ کیا اور ملکی پارلیمان کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین نے جو کپڑے پہن رکھے تھے ان پر اولی کی’بغاوت‘ کے خلاف نعرے درج تھے۔

صوبائی اسمبلی کے ایک ر کن لکشمن لامسال کا کہنا تھا”ہم وزیر اعظم کے غیر آئینی اقدام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور جب تک پارلیمان کو بحال نہیں کردیا جاتا اس وقت تک ہم اپنا مظاہرہ جاری رکھیں گے۔”

کورونا وائرس کی وجہ سے بڑے اجتماعات پر عائد پابندیوں کے باوجود یہ ریلی نکالی گئی۔ جس میں ہزاروں افراد موجو دتھے۔

وزیر اعظم اولی نے اس دلیل کے ساتھ پارلیمان کو تحلیل کرنے کی سفارش کی تھی کہ حکمراں کمیونسٹ پارٹی کی داخلی چپقلش کی وجہ سے فیصلہ سازی کا عمل معطل ہوکر رہ گیا ہے۔ خاتون صدر بدیا دیوی بھنڈاری نے اس ماہ کے اوائل میں ہی اولی کی سفارش منظور کرلی تھی۔ ملک میں اب اپریل اور مئی 2021 میں نئے انتخابات کرائے جائیں گے۔

پارلیمان کو تحلیل کیے جانے کے وجہ سے ملک بھر میں سیاسی بحران پیدا ہوگیا ہے۔ حکمراں جماعت دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ہے اور دونوں ہی کمیونسٹ پارٹی کا نام اور اس کے نشان پر اپنے اپنے دعوے کر رہے ہیں۔ اس دوران صدر کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں متعدد عرضیاں دائر کی گئی ہیں اور عدالت ان کی سماعت کرنے والی ہے۔

وزیر اعظم اولی کے حریف اور حکمراں جماعت کے دوسرے دھڑے کے رہنما پشپ کمل دھل سے جب ان مظاہروں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ”ہمیں سپریم کورٹ پر پورا اعتماد ہے لیکن ہمیں اس سے بھی زیادہ اعتماد اور امیدیں نیپالی عوام سے ہے۔”

اولی نیپال کو اس کے روایتی اتحادی بھارت سے دور کرکے چین کے قریب لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پشپ کمل دھل عرف پرچنڈ وزیر اعظم اولی کے ساتھ سیاسی اتحاد قائم کرنے سے قبل ایک ماونواز باغی گروپ کے رہنما تھے۔ اولی اور دھل کی مشترکہ صدارت میں متحدہ کمیونسٹ پارٹی نے 2017 کے عام انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کی۔ دونوں رہنماوں نے وزیر اعظم کے عہدے کی پانچ سالہ مدت کو باہم شریک کرنے کا معاہدہ کیا لیکن اقتدار سنبھالنے کے بعد اولی نے عہدہ چھوڑنے سے انکار کردیا۔

اولی کے بعض ناقدین ان پر بدعنوانی اور کورونا وائرس سے نمٹنے میں ناکامی کے الزامات لگاتے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ نیپال کو اس کے روایتی اتحادی بھارت سے دور کرکے چین کے قریب لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

نیپال کے سیاسی تجزیہ کار چندر دیو بھٹ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نیپال پر چین کا بڑھتا ہوا اثر بھارت کے لیے تشویش کی بڑی وجہ ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ چین کے اثرات بڑھتے ہی رہیں گے خواہ نیپال میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہو یا پھر کسی دوسری پارٹی کی۔ چندر دیو بھٹ کے مطابق ‘نیپال میں شہنشاہیت ختم کیے جانے کے بعد سے، چین نے نیپال کی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے ہیں۔”

رواں مالی سال میں نیپال میں تقریبا ً90 فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری چین سے آئی ہے۔ چین نے گزشتہ اکتوبر میں نیپال کو 50 کروڑ ڈالر کی اقتصادی مدد دی تھی۔ چینی صدر شی جن پنگ نے نیپال کے دورے کے دوران اس مالی امداد کا اعلان کیا تھا۔