مضطرب زندگی

Daughter

Daughter

تحریر: ڈاکٹر خالد فواد
والد نے اپنی بیٹی سے بغیر استفسار کیے اس کا رشتہ طے کر دیا اور اس کے بعد فیصلہ سنا کر بیٹی سے جواب حاصل کرنے کے لئے خاموش ہوا تو بیٹی نے جواباً عرض کیا کہ ابا جان جو حکم آپ دیں گے میں اس پر صبر و شکر کروں گی ان شااللہ۔بچی تعلیم یافتہ تھی ایم فل انگریزی کر چکی تھی مگر اس کی فکری بلندی اس قدر نہ تھی کہ وہ اپنی ذاتی شخصیت کو تقویت کے ساتھ ثابت کر سکے۔اس طرہ یہ ہے کہ ہمارے سماج میں عورت ذات کو پست و کم تر درجہ کی حیثیت تصور کیا جاتاہے۔رشتہ ہوجانے کے بعد لڑکا بے حد خوش ہوا کہ اس کے نکاح میں ایسی لڑکی آئی جو کہ تعلیم یافتہ ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کو ملازمت بھی مل گئی جس پر خاوند کے وارے نیارے ہوگے ،اسی کے ساتھ وہ بیوی کو زیردست کرنے کی خاطر ضرب و شتم کے رویے سے پیش آتاتھا۔

اس صورتحال سے دوچار ہونے کے سبب لڑکی کے چہرے کی خوشیاں ماند پڑگئی ،ایسا محسوس ہوتاتھا کہ گلاب کا پھول کھلے بغیر مرجھا گیا۔اس کرب و ابتلا اور طوفان بدتمیزی کے سبب وہ ہمہ وقت خاموش و مضطرب رہتی ،ماں پریشانی و بے چینی کی وجہ پوچھتی تو وہ طرح دی جاتی اور کہتی کہ وہ خوش ہے اور درست لیکن اس کا یہ جواب اس کی ماں کو مطمئن نہ کرتاتھا ،اگر اس کے باپ سے ماں پوچھتی کہ بیٹی کی دن بدن ڈھلتی صحت و صورت کا سبب کیا ہے تو وہ جواباً کہ دیتا کہ وہ خوش ہے اپنی زندگی میں ،بہن کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے چھوٹی بہن نے ماں سے مطالبہ کیا کہ وہ ابوسے بات کرے کہ وہ ہمیشہ خاموش رہتی ہے آخر کوئی دکھ یا تکلیف تو اس کو پہنچاہی ہوگا ؟؟مگر ماں ڈرتی تھی کہ کہیں باپ یہ جواب نہ دے دے کہ کیا تم لوگ مجھے اس بے چینی و بے سکونی کا ذمہ دار سمجھتے ہو؟؟

Baby

Baby

اس سربریت و بے رخی اور ظلمت و تاریکی کی زندگی کے عالم میں اس نے تین بچوں کو جنم دیا ،بچوں کی ولادت کے وقت وہ اپنے ماں باپ کے ہاں آجاتی تھی جس کے سبب اس کے عمل تولید کے اخراجات والد اداکرتاتھا،کبھی بھی شوہر نے اپنی آمدنی میں سے اپنی بیوی کی زندگی پر کچھ بھی خرچ نہیں کیا،طرفہ تماشہ تو یہ تھا کہ گھریلوضروریات و حاجات کی تکمیل پر خرچ بھی وہ خاتون خانہ خود ہی کرتی تھیں یعنی جب کبھی سپر مارکیٹ یا بازار میں کھانے پینے ،کپڑے وغیرہ کی خرید وفروخت کے لئے جانا ہوتاتو تب بھی خاوند اس سے مطالبہ کرتا کہ بل وہ اپنی تنخواہ و پیسوں سے اداکرے،تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ شوہر کی بداخلاقی و بدتہذیبی کو دیکھ کر فرعون و نمرود،ہلاکو چنگیز خان جیسے ظالموں کو بھی عار محسوس ہوتی کہ وہ اس سب کچھ عیش و عشرت کے اخراجات کو بیوی کی جیب سے حاصل کرتااور ساتھ ہی اپنی مردانگی و برتری باور کرانے کے لئے اس پر تشدد کرتا ،بچے نانا ابو اور نانی جان کو بتاتے کہ ان کی والدہ پر کس قدر والدہ پر ان کا جابر و قاہر والد ضرب و شتم کرتاہے اور جب کہ ان کی والدہ اس کے سامنے ایسی ساکت و صامت اور بے بس ہوتی ہے کہ جیسے اس میں روح باقی نہ رہی ہو۔

چوتھے بچے کی ولادت کے وقت بھی وہ خاتون اپنے والدین کے ہاں رہائش پذیر ہوئی اور عمل تولید کے بعد جب وہ بیمارہوچکی تھی تو اس سخت و مشکل حالت میں خاوند نے اس سے اپنے گھر جانے کے لئے سفر کا مطالبہ کیا جب کہ اس کی والدہ نے صحت کے ضعف و کمزوری کے سبب مطالبہ کیا کہ ابھی نہ جایاجائے مگر اس پر وہ لڑکی اس لئے تیار ہوگئی سفر کے لئے کہ نفع و نقصان کا ذمہ دار اس کا شوہر ہے۔اس المناک واقعہ کا ظاہری نتیجہ یہ ہے کہ وہ آدمی باوجود مرد ہونے کے بچوں اور بیوی پر خرچ کرنے سے احتراز کرتاتھا اور اس کے ساتھ وہ صرف اپنی ذاتی فرحت و شادمانی کی زندگی بسر کرنے میں محو رہتاتھا اس کو بیوی بچوں کے نفع و نقصان سے کوئی غرض نہ تھی بادی النظر میں وہ یہ سمجھتاتھا کہ اس کے بیوی بچے ہیں ہی نہیں۔۔۔۔؟؟؟

ہم پر لازم ہے کہ جب دختر نیک اختر کے لئے بر تلاش کرنے کا ارادہ کریں تو لازمی ہے کہ ہم اس میں لڑکے کے اخلاق و اطوار ،اس کے صدق و صفا ،اس کے طرز کلام اوراحساسِ ذمہ داری کا جائزہ لیں ۔۔۔۔کیوں کہ یہ ایک امانت کے انتقال و تسلیم کا معاملہ ہے ایسا نہ ہو کہ کہیں نااہل و جاہل کے ہاتھ اس کو سپرد کردیا جائے اور مکمل زندگی حزن و ملال اور غم و الم کی نظر ہوجائے۔لیکن دیکھایہ جاتاہے کہ بہت سے والدین اپنی بیٹی کے رشتے کے وقت صرف یہ دیکھتے ہیں کہ وہ مرد ہونا چاہیے اور اس کے پاس کم و بیش مال ودولت ہو۔۔۔اس طرح کا معاملہ اس لئے مکرر ہوتاہے کہ ان والدین پر زمانہ جاہلیت کی عادات فاسدہ غالب ہوتی ہیں کہ ان کو صرف اپنے فیصلہ کو تسلیم کرانے کا اصرار ہوتاہے ،جس کے نتیجہ میں وہ بیٹیوں کو مکمل ہوش و حواس میں دھکتی ہوئی آگ اور انجام بد کی نظر کردیتے ہیں۔

Dr Khalid Fawad

Dr Khalid Fawad

تحریر: ڈاکٹر خالد فواد