تحریر : شیخ خالد زاہد کرکٹ کھیلنے والے ممالک کی تعداد دنیا میں کھیلے جانے والے کھیلوں فٹبال یا لان ٹینس سے کم تو ہوسکتی ہے، مگر اس کھیل کے چاہنے والے کسی بھی دوسرے کھیل سے کم نہیں ہیں۔ برِصغیر میں یہ کھیل جنون کی حدتک دیکھا، کھیلا اور پسند کیا جاتا ہے۔ یہاں جیت کی خوشی کسی تہوار کی طرح منائی جاتی ہے تو ہار کسی بہت بڑے سانحہ کے سوگ کی علامت بن جاتی ہے، یہاں اگر کھلاڑیوں کو سر پر بٹھایا جاتا ہے تو دوسری طرف انکے پتلے جلانے میں بھی دیر نہیں لگائی جاتی۔ کرکٹ کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور تقریباً دنیا کے زیادہ تر ممالک میں کسی نا کسی سطح پر کرکٹ کی تربیت گاہیں کام کر رہی ہیں اور کرکٹ کھیلی جا رہی ہے ۔ کرکٹ ابتداء میں بہت ہی سست اور وقت ضائع کرنے والے کھیل سمجھا جاتا تھا اور دیگر اہم وجوہات میں سے ایک وجہ تھی کہ اسے بہت کم لوگ کھیلتے اور پسند کرتے تھے۔ اس کھیل کو مقبول کرنے اور عوامی توجہ مبزول کرانے کیلئے دو چیزوں پر خصوصی دھیان دیا گیاجسکا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے اس کھیل کو پانچ دنوں سے کم کر کے پچاس اوورز تک محدود کیا گیا اور کھیل کا نتیجہ یقینی بنایا گیا (جو کہ ٹیسٹ میچوں میں بہت ہی کم ہوا کرتا تھا) جس کی وجہ سے عوام کی توجہ بڑھنے لگی، پھر وقت کی رفتار بہت تیز ہوتی گئی اور لوگوں کے پاس وقت کی قلت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ٹوئنٹی 20 جیسا منفرد اور انوکھا تجربہ کیا گیا اور اس تجربے نے تو جیسے کرکٹ کی تاریخ ہی بدل کر رکھ دی۔ ٹوئنٹی 20 نے کھیل کا دورانیہ ہی کم نہیں کیا بلکہ کرکٹ کو رنگوں میں ڈبو دیا (سفید گیند اور رنگ برنگے کپڑے) اور ایک بھرپور تفریح مہیہ کرنے کا کھیل بن گیا ۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی اور دلچسپی بڑھانے کیلئے لوگوں میں شوق پیدا کرنے کیلئے کے آج کرکٹ سے وابستہ ممالک اپنے اپنے ممالک میں کرکٹ لیگ کروا رہے ہیں جن کو کامیاب بنانے کیلئے غیر ملکی کھلاڑیوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ کرکٹ میں رونق کہ ساتھ ساتھ شہرت کا بہت عنصر شامل ہوچکا ہے تو دوسری طرف مالی اعتبار سے بھی اس کھیل میں کھلاڑیوں کیلئے بہت کچھ ہے۔
ہر کھیل میں امپائر یا ریفری یا کوئی بھی منصف ضرور ہوتا ہے اور اسکی اہمیت اور افادیت کھیل کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے، انکے بغیر کوئی بھی کھیل خوش اسلوبی سے اپنے منتقی انجام کو نہیں پہنچ سکتا۔ آج کرکٹ کی خوبصورتی بھی ان امپائرز کی مرہونِ منت ہے۔ 1987 سے قبل کرکٹ میزبان ممالک کے امپائرز فرائضِ منصبی سرانجام دیتے تھے یا مقابلوں کا انعقاد کرواتے تھے۔ جس ملک میں یہ کھیل کھیلا جا رہا ہوتا امپائر بھی اسی ملک کے ہوا کرتے تھے، متنازع فیصلوں کی سرگوشیاں ہوتی رہتی تھیں اور پھر یہ سرگوشیاں اتنی کثرت سے ہوئیں کہ گونج کی صورت اختیار کر گئیں جو یقیناً بین الاقوامی کرکٹ کونسل کیلئے بھی لمحہ فکریہ تھا، یہ متنازع فیصلے کرکٹ میں بد صورتی کی آمیزش کر رہے تھے اور کرکٹ کے امپائرز اپنی اور اپنے ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ ہر ملک اپنی ہوم سریز کا فائدہ اٹھاتا جا رہا تھا۔ ابھی کرکٹ کونسل کوئی فیصلہ نہیں کر پائی تھی کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان عمران خان نے “نیوٹرل امپائرز یعنی غیر جانبدار امپائرز” کی دستیابی کا مطالبہ پیش کردیا جسے شروع میں تو کافی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا مگر وقت نے یہ ثابت کیا کہ یہ مطالبہ انتہائی نافذ العمل تھا۔ جس کرکٹ کو ہماری نئی نسل دیکھ رہی ہے اور بے انتہا پسند کر رہی ہے اس میں “نیوٹرل امپائرز یعنی غیر جانبدار امپائرز”کا کردار بہت اہم ہے اگر ایسا نا ہوتا اور بین الاقوامی کرکٹ کونسل اس پر عمل درآمد نا کرتی تو شائد یہ کھیل کب کا ختم ہوچکا ہوتا یا غلط فیصلوں پر جنگیں ہوجاتیں۔ کرکٹ سے سچی محبت کرنے والے اس موضوع کو لے کر “عمران خان” کا شکریہ ادا کرتے رہینگے اور کرکٹ بھی “عمران خان” کی شکر گزار رہے گی۔ عمران خان کی قائدانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ان کا “نیوٹرل امپائرز یعنی غیر جانبدار امپائرز” کا تکازہ انتہائی اہم اور تاریخی کارنامہ ہی نہیں بلکہ کرکٹ پر احسانِ عظیم ہے۔
یہ مضمون کرکٹ پر نہیں لکھنا تھا مگر بہت کچھ لکھ دیا۔ اس مضمون کو موجودہ سیاسی اور عدالتی حالات پر لکھنے بیٹھا تھا تو معلوم نہیں کہاں سے نیوٹرل امپائرز ذہن میں گردش کرنے لگے، دراصل کسی بھی قسم کی ایمانداری میں کھوٹ سے بچاؤ کیلئے “نیوٹرل امپائرز یعنی غیر جانبدار امپائرز” کا ہی خیال ذہن میں کوندنے لگتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اعلی عدلیہ کا احترام انکی عزت و تکریم ہم اپنے اوپر فرض جانتے ہیں۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں تہرہ عدالتی نظام ہے۔ شرعی عدالتوں کا تذکرہ سوائے شرمندگی کہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔
ہمارے ملک میں کرپٹ لوگوں کی فہرست مرتب دینا کوئی مشکل کام نہیں، اس کام کو سرانجام دینے کیلئے کسی بہت ہی حساس ادارے کی بھی ضرورت نہیں، ہر وہ فرد جو تھوڑا بہت کسی نا کسی مشکل میں مبتلا ہے (اکثریت تو ہے ہی مشکلات سے دوچار) وہ اس فہرست کو ترتیب دے کر آپکے حوالے کردے گا۔ سونے پر سوہاگا دوسری جانب ان کرپٹ لوگوں کی تاج پوشیاں بھی ہوتی ہیں، جیل سے نکلتے ہی گل پاشی کی جاتی ہے اور ڈھول تاشوں بہت دھوم دھام سے استقبال کیا جاتا ہے۔ جبکہ اگر ایک غریب کا بچہ تندور سے روٹی اٹھاتا ہوا پکڑا جاتا ہے تو اسے مار مار کر تقریباً جان سے ہی ماردیتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے سوالیہ نشان بن کر رہ جاتے ہیں، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں بہت تگ و دو اور مشکلوں سے قانون کی گرفت میں لایا جاتا ہے اور وہ اپنے اثر و رسوخ استعمال کر کے رہائی پا جاتےہیں۔
ہمارے عدالتی نظام کا رویہ کچھ مشکوک سا دیکھائی دے رہا ہے کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ بھی نہیں جبکہ فوجی عدالتیں کہتی کچھ بھی نہیں ہیں اور بس کر کے دکھاتی جاتی ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قابلیت اور اہلیت کو چیلنج کرتا دیکھائی دے ریا ہے۔ کیا ہمارا عدالتی نظام بھی “جسکی لاٹھی اسکی بھینس” کے محاورے پر عمل پیرا ہوچکا تو پھر عمران خان صاحب کی تجویز برائے “نیوٹرل امپائرز یعنی غیر جانبدار امپائرز” پر غور کرنا پڑے گا یہ غور کون کرے گا یہ بھی ہم سب بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ فوجی عدالتیں صرف دہشت گردوں کو سزائیں یا دہشت گردی کے کیسس ہی کیوں دیکھ رہی ہیں ہمارے ملک میں دہشت گردی کو جنم دینے والی بھی تو کرپشن ہے اگر دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے تو کرپشن جیسی لعنت کو ختم کرنا ہوگا۔ کرپشن کے خاتمےکیلئے بھی ایک سرجیکل آپریشن کرنا ہوگا۔ ہمیں آپریشن ردالفساد میں کرپٹ افراد کو بھی کیفرِ کردار کو پہنچانا ہوگا۔ کہیں کرپشن ہماری ثقافت اور تہذیب کا جز بن کر ہمیں جنوبی امریکی ریاستوں کے نقشِ قدم پرگامزن نا کردے۔
اعلی عدلیہ اور قابلِ احترام جج صاحبان سے درخواست کرنا چاہونگا کہ ہم پاکستانی عوام آپ جج صاحبان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بھروسے اس وطن کی گاڑی دھکیلے جا رہے ہیں اس کا ایندھن بنے ہوئے ہیں۔ آپ ہماری تاریک ہوتی امیدوں کے روشن چراغ ہیں۔ قدرت نے اللہ رب العزت نے آپکو بہت بھاری ذمہ داری دی ہے اب آپ خود ہی دیکھ لیجئے کیا آپ یہ ذمہ داری نبھا رہے ہیں ورنہ ایک دن حساب تو سب کو ہی دینا ہے۔ روزِ حشر جھوٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی اور وہاں پر بغیر اپیل کی گنجائش کہ حتمی فیصلے “نیوٹرل (غیر جانبدار) امپائر” ہی کرینگے۔