تحریر : پروفیسر رفعت مظہر 80 کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق نے افغان جنگ میں شرکت کا فیصلہ کرکے جتنا نقصان ارضِ وطن کو پہنچایا ، شاید کوئی اور نہ پہنچا سکے۔ یہ وہی دَور ہے جب ہم امریکی آشیرباد سے روس کو افغانستان سے نکالنے کے لیے کمربستہ ہوئے اور اپنے آپ کو ایک ایسی لامتناہی جنگ میں جھونک دیا جس سے ہم آج تک بَرسرِ پیکار ہیں ۔ روس تو ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا لیکن امریکہ بھی واحد سُپرپاور اور عالمی ڈان بَن کر دنیا پر مسلط ہو گیا کیونکہ اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والا کوئی باقی نہ بچا۔ روسی ہزیمت کے بعد امریکہ بھی افغانستان سے بستر بوریا سمیٹ گیا اور ہمیں کیا مِلا؟، کلاشنکوف کلچراور افغان مہاجرین۔ لاکھوں افغان مہاجرین جوافغان جنگ کے دَوران پاکستان ہجرت کر آئے تھے ، اُنہوں نے پاکستان میں مستقل ٹھکانہ کر لیا۔
نائین الیون کے بعد پاکستان ایک دفعہ پھر اندھی اور بے چہرہ جنگ کا شکار ہوا ۔ اِس بار ہمیں اِس جنگ میں دھکیلنے والے پرویز مشرف تھے جنہوں نے امریکہ کی ایک کال پر گھٹنے ٹیک دیئے اور وہ کچھ بھی مان گئے جس کا امریکہ نے مطالبہ بھی نہیں کیا تھا۔ اِس جنگ میں پاکستان نے نہ صرف اپنی معیشت کو عشروں پیچھے دھکیلا بلکہ ہزاروں جانوں کی قربانی بھی دی اور اب تک ہم اسی جنگ میں گرفتار ہیں ۔ تحریکِ طالبان پاکستان نامی دہشت گرد تنظیم اِسی دَور کی پیداوار ہے جن کے وزیرستان میں ٹھکانوں کو جنرل راحیل شریف کے آہنی عزم نے ختم کیا لیکن اب بھی دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا اور کہیں نہ کہیں ، کوئی نہ کوئی سانحہ رونما ہو جاتا ہے ۔ یہ امر اب مسلم الثبوت ہے کہ ٹی ٹی پی کی پُشت پر بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” موجود ہے جو افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف طالبان کے ذریعے تخریبی کارروائیاں کر رہی ہے ۔ یہ افغان مہاجرین نہ صرف دہشت گردی بلکہ جرائم میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔
وہ افغان مہاجرین جو اسّی کی دہائی میں پاکستان آئے ، اب اُن کی تعدادلَگ بھگ چالیس لاکھ ہو چکی ہے ۔ دَس لاکھ سے زائد مہاجرین نہ صرف پاکستانی شناختی کارڈ بنوا چکے بلکہ پاکستانی پاسپورٹ پر دنیا بھر کا سفر بھی کرتے ہیں ۔ یہی مہاجرین پاکستان کے مختلف محکموں میں پاکستانی بن کر ملازمتیں بھی کر رہے ہیں۔ اِن مسلط کردہ ”مہمانوں”سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو رہا ہے ۔ پاکستانی حکومت اَسّی کی دہائی سے اَب تک اِن”مہمانوں” پر 200 ارب ڈالر سے زائد صرف کر چکی ہے ۔ یہ ایسا ناقابلِ برداشت بوجھ ہے جس سے جتنی جلدی پیچھا چھڑایا جائے ، اُتنا ہی بہتر ہے۔ویسے بھی محض چند گھنٹوں کی مسافت پر اِن لوگوں کے اپنے گھر او راپنا ملک موجود ہے اور انہیں افغان طالبان سے بھی کوئی خطرہ نہیں۔ اِس کے علاوہ اَب افغانستان حالتِ جنگ میں بھی نہیں۔ اِس کے باوجود بھی یہ پاکستانی معیشت پر بوجھ بنے بیٹھے ہیں۔
Mahmood Khan Achakzai
اب پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سَربراہ محمود خاں اچکزئی کی طرف سے یہ عجیب وغریب مطالبہ سامنے آیا ہے کہ اِن مہاجرین کو پاکستانی شہریت دے کر سرحد سے اٹک اور میانوالی تک نیا افغان صوبہ بنایا جائے ۔ اتوار کو عبد الصمد اچکزئی کی برسی پر خطاب کرتے ہوئے محمود اچکزئی نے کہا کہ پاکستان میں لاکھوں پشتون اور افغان آباد ہیں ۔ حکومت اُنہیں نکالنے کی تیاریاں کر رہی ہے لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے ۔ افغان مہاجرین کے لیے بارڈرسے اٹک اور میانوالی تک الگ صوبہ بنایا جائے جس کا نام افغانیہ ہو۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ارکانِ پارلیمنٹ اور وزراء سمیت آدھے پاکستانیوں نے دوہری شہریت حاصل کر رکھی ہے تو پھر افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت کیوں نہیں دی جاسکتی؟۔ محمود اچکزئی خوب جانتے ہیں کہ پاکستان میں کسی بھی غیر ملکی کو شہریت دینے کا کوئی قانون ہی نہیں لیکن پھر بھی وہ اُس افغانستان کی محبت میں مرے جا رہے ہیں جس کے صدر اشرف غنی کو بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کی دوستی پر فخر ہے اور وہ مودی کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف آگ اُگلتا رہتا ہے ۔اُس کی پاکستان کے خلاف زہرناکی کسی سے پوشیدہ نہیں اور یہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ بچی کھچی تحریکِ طالبان پاکستان ، افغانستان میں ہی پناہ لیے ہوئے ہے اور پاکستان میں ہونے والے ہر دہشت گرد حملے کا سُراغ افغانستان ہی سے ملتا ہے۔
اب”چادرپوش” کا مطالبہ نیا افغانیہ صوبہ بنانے کا ہے تاکہ دہشت گردی کا عفریت ہمیشہ ہم پر مسلط رہے اور افغان مہاجرین دہشت گردوں کو پناہ دیتے رہیں۔ حیرت ہے کہ ایک طرف تو محمود اچکزئی حکومت کے اتحادی ہیں اور اُن کے خاندان کے نصف درجن سے زائد ارکان حکومت میں شامل بھی ہیں جبکہ دوسری طرف وہ حکومتی پالیسیوں کے مخالف بھی۔ قومی مؤقف کو سمجھے بغیر اِس قسم کی دُرفتنیاں ملکی و قومی مفاد کے خلاف ہیں لیکن ”چادرپوش” کو اِس سے کیا۔ اُن کی تو ساری ہمدردیاں افغانستان اور بھارت کے ساتھ ہیں ۔ اِسی لیے وہ خِطے میں ہر خرابی کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے صدر میر حاصل بزنجو نے محمود اچکزئی کے اِس ناقابلِ یقیں اور ناقابلِ عمل بیان کے جواب میں افغان مہاجرین کی جلد واپسی کا مطالبہ کیا ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ افغانیہ صوبے کے مطالبے سے متفق ہیں نہ بلوچستان میں افغان مہاجرین کو کسی بھی صورت قبول کرنے کے لیے تیار۔
اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ بلوچستان میں افغان مہاجرین کی موجودگی میں کی جانے والی مردم شماری بھی قبول نہیں کریں گے۔ اُنہوں نے زور دے کر کہا کہ چالیس لاکھ غیر قانونی مقیم افغانیوں کی واپسی کے بغیر پاکستان میں امن کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔ وہ افغان شہری ہیں جن کے لیے افغانستان میں ہونے والے انتخابات کے لیے پاکستان میں پولنگ بوتھ بھی بنائے گئے اورافغان مہاجرین نے حامد کرزئی اور اشرف غنی کو ووٹ بھی دیئے۔ اِس لیے اُن کے لیے شہریت اور الگ صوبے کا مطالبہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں ۔افغان مہاجرین ہمارے مسلمان بھائی ہیں اور اُن کی خدمت ہمارا فرض لیکن یہ اُسی صورت میں ممکن ہے ، اگر اُن کا اپنا گھر بار نہ ہو یا اُن پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جا رہے ہوں ۔ ہمارے سامنے حضور ۖ کی مثال موجود ہے جنہوں نے مشرکینِ مکّہ کے ظلم و ستم کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو یثرب (مدینہ النبی) ہجرت کرنے کا حکم دیا ۔ یہ بھی تاریخ کا حصّہ ہے کہ جب حالات درست ہوئے اور مکّہ فتح ہو گیا تو بہت سے مہاجرین اپنے گھروں کو لَوٹ آئے۔ اِس وقت افغانستان حالتِ جنگ میں نہیں ، اِس لیے اِن مہاجرین کو اپنے گھروں کو لَوٹنا ہی ہو گا۔