تحریر : طارق حسین بٹ سیاست امکانات کا کھیل ہے اور اس میں کبھی کبھی بڑے غیر متوقع فیصلے بھی صادر کرنے پڑتے ہیں۔یہ فیصلے کبھی کبھی تو ہضم ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھی سمجھ سے بالا تر ہو جاتے ہیں لیکن وقت ان کی افادیت کو خود ہی ثابت کر دیتا ہے۔سیاست لوہے کی کوئی سخت سلاخ نہیں ہوتی جو اپنی حالت نہیں بدل سکتی بلکہ یہ ایسی لچک دارچھڑی ہوتی ہے جسے حالات کی مناسبت سے گھمایا اور پھرایا جا سکتا ہے۔ تحریکِ انصاف کے دو نومبر کے دن لاک ڈائون کو یومِ تشکر میں بدل دینے کے فیصلے کوکچھ لوگ غیر لچک دار رویے کے پسِ منظر میں دیکھ کر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ کچھ با شعور حلقے اس فیصلے کو لچک دار چھڑی کے تناطر میں دیکھ کر اس کی داد و تحسیسن کر رہے ہیں ۔عمران خان کے پاس دو آپشن تھے اور اس میں سے انھوں نے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انھوں نے دو نومبر کو ہر حال میں دھرنا دینے کا اعلان کر رکھا تھا۔عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر آسمان بھی گر پڑا تودھرنا پھر بھی ہو گا ۔گویا کہ وہ کسی بھی حالت میں دھرنا دینے سے باز نہیں آئیں گے۔لیکن پھر نجانے کیا ہو گیا کہ انھوں نے دھرنے کی کال واپس لے کر یومِ تشکر کا اعلان کر دیا۔
ان کے انتہائی قریبی دوست عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید بھی اس غیر متوقع فیصلے سے چکرا کر اسے سمجھنے سے قاصر ہو گئے اور انھوں نے دو نومبر کو یومِ تشکر پر گھر میں بیٹھے رہنے کا فیصلہ کر لیا۔یہ تو عمران خان کی ٹیلیفون کال تھی جس پر وہ یومِ تشکر میں آمادگی پر راضی ہوئے وگرنہ ان کا ارادہ گھر میں ہی بیٹھے رہنے کا تھا۔وہ جب جلسہ گاہ پہنچے تو انھیں اقرار کرنا پڑا کہ عمران خان کا فیصلہ درست تھا کیونکہ عوام کا جمِ غفیر انھیں خوش آمدید کہنے کیلئے بے تاب تھا۔شیخ رشید کا اقرار سیاست کی بو قلمونی کی گواہی دینے کے لئے کافی ہے۔اس سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ کبھی کبھی بڑے بڑے شہسوار بھی سیاست کی چالوں کو سمجھنے سے معذور ہو جاتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ سیاست میں کسی بھی وقت کوئی غیر متوقع فیصلہ پورے منظر نامے کو بدل دیتاہے اور دو نومبر کو عمران خان کا یومِ تشکر کا فیصلہ بدلتے موسموں میں ایک ایسا فیصلہ ہے جس نے سیاست کی پوری ہئیت کو بدل کر رکھ دیا ہے۔یہ ایک ایسا نیا اندازِ سیاست ہے جو عمران خان کی شخصیت سے تال میل نہیں کھاتا۔
کہاں مسلح جتھوں کے ساتھ تصادم اور کہاں حکمرانوں کو سپر یم کورٹ کے سامنے کشاں کشاں لے جانے کا انتہائی طلسماتی انداز جس کا ادراک خود حکمران بھی کرنے سے قاصر ہیں۔وہ بھی اسے معمول کی کاروائی سمجھ رہے ہیں کیونکہ ان کا ماضی اس طرح کے مقدمات سے خود کو پاک صاف نکال لینے میںکی گواہی دے رہا ہے ۔انھیں اب بھی یقین ہے کہ پاناما لیکس میں بھی ایس اہی ہو گا اور وہ اپنا دامن بچا کر نکل جائیں گے۔بہر حال عمران خان کی ایسی چال جو اپنے اندر بے شمار جہتیں رکھتی ہے جسے اس وقت ہی سمجھا جا سکے گا جب سپریم کورٹ کا فیصلہ صادر ہو جائیگا۔مختصر اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس فیصلے کے سارے سوتے پر امن جدو جہد کی غمازی کرتے ہیں ۔سپریم کورٹ کے سامنے سرنگوں ہو جانے سے انتشار اور بد امنی پھیلانے کے الزامات اور ایمپائر کی انگلی اٹھنے کے داغ دھبے بھی دھل چکے ہیں اور شب خون کو آوازیں دینے کے الزامات بھی دم توڑ چکے ہیں ۔جمہوریت پسندی کا انعام تو اپنی جگہ ہے لیکن اس کے ساتھ آئین و قانون کی پاسداری کا سرٹیفکیٹ اس سے اضافی ہے جو تحریکِ انصاف کو شائد پہلے کبھی نہیں ملا تھا۔گویا کہ راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔،۔
Nawaz Sharif
کیا یہ بات کسی کے حیطہِ ادراک میں آ سکتی تھی کہ پاکستان میں ایک دن ایسا بھی آجائیگا کہ دو تہائی اکثریت کا حامل وزیرِ اعظم کرپشن کے الزامات میں عدالت کے روبرو اپنے اعمال کا حساب دے رہا ہو گا۔پاکستان کا سب سے امیر حکمران اس وقت عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہے اور اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کا منتظر ہے۔ہم نے اس سے قبل کئی حکومتوں کی کرپشن کے الزامات میں کی برخاستی دیکھی ہے اور اس کے بعد ایک لمبی چپ بھی دیکھی ہے کیونکہ اس وقت نہ تو حساب لینے والے سنجیدہ تھے اور نہ ہی حساب دینے والے تیار تھے۔باریاں مقرر تھیں اور حکمران ان باریوں میں خوش تھے ۔کارکنوں کو ایک دوسرے کی مخالفت میں مرنے مارنے پر تیار کر لیا جاتا تھا لیکن اندر سے سارے اس ایک بات پر سارے متفق ہوتے تھے کہ ایک دوسرے کا احتساب نہیں ہو نے دینا ۔سرے محل،سوئیز اکا ئونٹس،شوگر فیکٹریاں اور مختلف ملیں قومی دولت کی لوٹ مار کی منہ بولتی شہادت دے رہی ہیں جبکہ آف شور کمپنیاں اور کاروباری ایمپائرز قومی خزانے پر دست درازی کی کھلی کہانیاں بیان کررہی ہیں۔
لیکن جب میثاقِ جمہوریت میں ہر جائز و ناجائز کی اجازت مرحمت فرما دی گئی تھی تو پھر احتساب کی تلوارکند ہو کر رہ گئی تھی۔یہی وہ وقت تھا جب تحریکِ انصاف کرپشن کے خلاف میدان میں نکل پڑی۔ ناجائز دولت پر پاناما لیکس کا جن بوتل سے باہر آیا تو اہلِ وطن کو علم ہوا کہ ہمارے حکمران کس درجہ کے لٹیرے ہیں۔ کرپشن کا یہ جن اپوزیشن کی کسی سازش کا شاخسانہ نہیں تھا بلکہ عالمی پریس نے اسے اچھالا تھا۔کیاایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہے یا نیو ورلڈ آرڈر کے لئے ایسا کرنا ناگزیر تھا ابھی اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ اس کے اسباب کچھ بھی ہوں عوام کم از کم یہ جا ن گے ہیں کہ ان کے حکمران کرپٹ ہیں۔پہلے یہ الزام پی پی پی کے چیرمین آصف علی زرداری پر لگتا تھا۔
لیکن پانا ما لیکس کے بعد اس الزام کا ہدف مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف بن گے اور وطنِ عزیز میں وہ جنگ شروع ہو گئی جس کے بطن سے احتجاجوں ،جلسے جلوسوں اور دھرنوں نے جنم لیا ۔اب معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے ہے لہذایقینِ واثق ہے کہ اس معاملہ کا کوئی آئینی اور قانونی حل نکل آئے گا۔ یکم نومبر کو عمران خان نے جب دھرنے کی منسوخی کا پیغام دیا تو اس وقت ڈاکٹر علامہ طاہرا لقادری نے انا للہ و الا الیہ راجعون پڑھا۔یہ ایک ایسا جملہ تھا جس سے یہ تاثر ابھرا کہ پاناما لیکس اب ماضی کا حصہ بن جائیگی لیکن عدالتی کاروائی نے اس تاثر کی نفی کر دی۔
Supreme Court
سپریم کورٹ اس مقدمے کا میرٹ پر فیصلہ کرنا چاہتی ہے اور جلدی کرنا چاہتی ہے تا کہ یہ قضیہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے ۔ عمران خان نے ایک شاطر سیاست دان کی طرح مسلم لیگ(ن) کو گھیرے میں لے لیا ہے۔پی پی پی اس گھیرے سے انھیں چھڑانے کیلئے میدان میں نکل پڑی ہے کیونکہ میاں محمد نواز شریف کے احتساب کے معنی پی پی پی کی قیادت کا احتساب ہے جو اسے کسی بھی طور قبول نہیں ہے ۔ ہماری قائدین خود کو فرشتے ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ فرشتے ورشتے باکل نہیں ہیں بلکہ دولت کے ایسے پجاری ہیں جن کی نظر میں عوام کی نہیں بلکہ دولت کی اہمیت ہے۔کارکنوں کو تو صرف استعمال کیا جا تا ہے۔عمران خان کا کمال یہ ہے کہ اس نے احتساب کی تلوار کی دھار کو اتنا تیز کر دیا ہے کہ سب سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ خوف کا شکار ہو چکی ہے۔
سپریم کورٹ میں مجوزہ مقدمہ صرف مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو ہی بے نقاب نہیں کریگا بلکہ اس سے پورا جمہوری نظام ایک نئی راہ پر گامزن ہو جائیگا۔منہا ج القرآن کے ١٤ کارکن دن دھاڑے قتل کردئے گے اور سو سے زائد زخمی ہوئے لیکن منہاج ا لقرآن کی قیادت ملزموں کو عدالتی کٹہرے میںلانے سے معذور رہی ۔ان کی تو ایف آئی آر ہی درج نہیں کی جا رہی تھی یہ تو جنرل راحیل شریف تھے جن کی مداخلت پر ایف آئی آر کاٹی گئی لیکن اس کے بعد ایک لمبی خاموشی ہے اور منہا ج القرآن قصاص کے نام پر جو تحریک چلا رہی ہے وہ بالکل بے اثر نظر آ رہی ہے جبکہ عمران خان کی دھرنا دھمکی نے شریف خاندان کو سپریم کورٹ کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔
کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ عمران خان کی چال نے اپنا رنگ دکھا دیا ہے۔ہمیں اس بحث میں نہیں پڑنا چائیے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا ہو گا بلکہ ہمیں اس بات کو مدِ نظر رکھنا ہو گا کہ پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے جس میں طاقتور ترین حکمرانوں سے یہ پوچھنے کی جسارت کی جا سکتی ہے کہ انھوں نے اپنی عظیم صنعتی ایمپائر کیسے کھڑی کی ہے؟۔