تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ہر انسان کی زندگی میں ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے جو اس کی حاصل زندگی ہوتی ہے ۔ ایسی ایک گھڑی پوری زندگی سے قیمتی اور افضل ہوتی ہے ۔ یہ ایک ساعت لمحہ اُس انسان کی زندگی کو بدل کے رکھ دیتا ہے انسان اُس لمحے میں نیا جنم لیتا ہے میری سیا ہ کار حماقتوں سے لبریز زندگی میں بھی وہ لمحہ آہی گیا تھا جو میری پو ری زندگی پر بھا ری تھا یہ میری زندگی کا حاصل اور نچوڑ تھا مجھے لگ رہا تھا کہ اِس سے پہلے والی زندگی بیکار ہی گزر گئی آج میرا نیا جنم ہوا ہے اِس سے پہلے زندگی کے سارے شب و روز زائع ہو گئے پچھلی زندگی میں زیا دہ تر وقت کھیل کو د میں کتا بیں پڑھنے میں آوارہ گردی میں لڑنے لڑانے دوسروں سے آگے بڑھنے میں اپنی انااور خو دی کو پروان چڑھانے میں کھا یا پیا آفزائش نسل کا حصہ بننے میں نہ عبادت نہ ریا ضت کچھ بھی نہیں غیر پیداواری سرگرمیوں میں ساری زندگی اکا رت گئی ۔ گزشتہ زندگی کی تمام تر حماقتوں اور سیا ہ کا ریوں کے با وجود شہنشاہِ دوعالم نے اپنے در پر بلا لیا یقنا یہ میری زندگی کی سب سے افضل اور قیمتی گھڑی تھی میں سر جھکا ئے کتنی دیر سے بت بنا آنسوئوں کا نذرانہ سر تاج الانبیاء ۖ کے حضور پیش کر رہا تھا میں کئی با ر آنکھیں اٹھا نے کی کو شش کر چکا تھا لیکن میری پلکیں پتھر کی سل کی طرح بھا ری ہو چکی تھیں۔
آخر کار ہمت کر کے سنہری جا لیوں کی طرح دیکھا سنہری جالیوں کے آگے سرخ چادر نظر آئی جس پر لفظ محمد ۖ لکھا تھا اُس پر نظر پڑنے کی دیر تھی کہ میرا جسم بید مجنوں کی طرح لرزنے لگا میں چادر کے اند ردیکھنے کی کو شش کر رہا تھا کہ اچانک ایک خیال روشنی کی طرح میں دل و دماغ میں چمکا اور مجھے ہلا کر رکھ دیا خیال یہ کہ جالیوں کے پا ر چادر کے آگے آقا ئے دو جہاں ۖ کا جسم اطہر اور میں سردار الانبیاء کے جسم اطہر کے اتنا قریب پیا رے آقا ۖ کے پاک جسم مبا رک کو چھو نے کے لیے دن رات جنت الفردوس کی ہوا ئیں ترستی ہیں اور جب خالق خدا کی اجا زت سے جنت کی ہوا ئیں روضہ رسول ۖ کے گنبد سے آکر لپٹتی ہوں گی گنبدِ خضرا کے بو سے لینے کے بعد واپس جب بہشت میں جا تی ہو نگی تو جنت کا گو شہ گو شہ مہک اٹھتا ہو گا اور آسمان پر فرشتوں کی لمبی لمبی قطاریں لگی ہو نگی کہ ان کو شہر مدینہ حاضری کی اجا زت مل سکے اور پھر جن قدسی ملا ئکہ کے بھا گ جا گتے ہوں گے وہ کر ہ ارض پر آکر روضہ رسول ۖ کا دیوانہ وار طواف کر تے ہو نگے اُس مٹی کے بو سے لیتے ہو نگے جو شاہ ِ دو عالم کے قدموں کو چھو تی ہو گی یہ تصور مجھے خو شی اور سرشاری کے ساتویں آسمان پر لے گیا تھا کہ میں محسنِ انسانیت ۖ کے جسم اطہر کے اتنا قریب ہوں یقین نہیں آرہا تھا کہ میں اماں عائشہ کے حجرہ مبا رک کے اتنا قریب ہوں جہاں نو ررحمت نے شب و روز گزارے جہاں ہر طرف سرور کو نین ۖ کی خو شبو مہکی ہو ئی تھی۔
Muhammad PBUH
یہیں پر شہنشاہ ِ دو جہاں ۖ مسکرائے ہوں گے آپ کے شفیق دلنواز ادائوں سے کو نا کونا مہکتا ہو گا اور قیا مت تک اِسی طرح آپ ۖ کی مہک آنے والے عشاق کو مہکا تی رہے گی ۔ پتہ نہیں اچانک کیوں میں نے لمبی لمبی سانسیں لینی شروع کر دیں میں کو شش کر رہا تھا زیا دہ سے زیا دہ یہاں کی ہوا کو اپنے کثیف جسم میں بھر سکوں اپنی روح اور با طن کے نہاں خا نوں کو مہکا سکوں پھر مجھے آقائے دو جہاں کا یہاں پر چلتا پھرنا یا د آنے لگا کہ کس طرح جب آپ حجرہ مبا رک سے نکلتے ہو نگے تو دیوانے اپنی آنکھوں کی پیاس کو آپ کے دیدار سے بجھا تے ہوں گے آپ ۖ کے پروانے ہر نماز کے وقت آکر بیٹھ جا تے کہ کب شہنشاہ ِ مدینہ ۖ با ہر تشریف لا ئیں اور وہ اپنی روحوں کو مہکا سکیں اور کہیں کہیں بہت سارے سوالی بھی آکر بیٹھ جا تے ہو نگے اور جب آقا پاک ۖ حضرت بلال حضرت انس سے کہتے ہو نگے کہ جا ئو جا کر دیکھو کو ئی سوالی تو نہیں بیٹھا اور جب آپ ۖ کے خا دم آپ ۖ کو بتاتے ہو نگے کہ آقا ۖ بہت سارے سوالی اپنی جھولیاں پھیلا ئے کھڑے ہیں اور پھر رحمت ِ دو جہا ں ۖ ان سوالیوں کی جھولیاں بھر دیتے ہو نگے اسی طرح بہت سارے بھو کے پیاسے اپنی بھو ک پیاس مٹانے کے لیے حجرہ مبا رک کے با ہر آکر بیٹھ جا تے ہو نگے اور پھر یتیموں کے آسرے نبی رحمت اپنے سامنے پڑے ہو ئے کھا نے کو اٹھا کر باہر سوالیوں میں تقسیم کر دیتے ہو نگے۔
اچانک ایک خیال نے میری روح کو مہکا دیا کہ آج بھی شہنشاہِ دو عالم ۖ نے پو چھا ہو گا کہ با ہر کون کو ن سوالی آیا ہوا ہے تو خادم نے آج بھی بتایا ہو گا کہ دنیا جہاں سے آئے ہو ئے پروانوں میں پا کستان سے بھی ایک سوالی آیا ہوا ہے اور آکر مسلسل ڈر رہا ہے کہ کہیں گستاخی نہ ہو جا ئے کو ئی غلطی نہ ہو جائے کوئی حماقت نہ ہو جائے تو رحمتِ دوجہاں ۖ نے شفیق دلنواز تبسم سے فرمایا ہو گا جائو ان کی جھو لیاں بھر دو اس خیال کے ساتھ ہی میری روح اور دل و دما غ خو شی و سر شاری سے جھو منے لگے کیونکہ محبوب خدا ۖ نے آج تک کسی کو بھی خا لی ہا تھ نہیں لو ٹا یا کو ن ہے جو اِس در پر آیا اور وہ خا لی ہا تھ واپس گیا۔
Happiness
اِس در پر گناہ گار سے گناہ گاربھی آیا تو اُس کا دامن خوشیوں سے بھر دیا گیا ۔کیو نکہ اگراِس در کے علا وہ تو دنیا میں کچھ ہے ہی نہیں یہی وہ در ہے جہاں انسانوں کا نیا جنم ہو تا ہے یہیں پر جسم و روح کی کثافتیں لطافتیوں میں ڈھلتی ہیں یہیں پر گنا ہ گار سے گنا ہ گار بھی آکر ساری عمر کے لیے تا ئب ہو کر واپس جا تا ہے یہاں پر انسان سازی ، کردار سازی ہو تی ہے اِسی در پر انسان گنا ہوں کی زندگی سے تائب ہو کر نیکی اور شرافت کی زندگی ہمیشہ کے لیے اپنا لیتا ہے اِس در پر جو بھی آگیا وہ بد ل گیا اُس کا نیا جنم ہو گیا اُس کی زندگی نئے دور میں شامل ہو گئی۔
دنیا کے چپے چپے سے آنے والے پروانے یہاں سے اپنی خا لی جھولیاں بھر کر واپس جا تے ہیں اور پھر یہاں سے نور کے خزانے اپنے گھروں میں جا کر با نٹتے ہیں جو بھی زندگی میں ایک بار یہاں آگیا وہ امر ہو گیا ۔ اُس کا دنیا میں آنے کا مقصد پو را ہو گیا اُس نے زندگی حقیقی معنوں میں جی لی یہیں سے پروانے نو ر کی سوغا ت لے کر جا تے ہیں اور پھر یہ نور وہ معاشروں میں جا کر با نٹ دیتے ہیں۔ یہاں سے واپس جا نے والے پروانوں کے چہرے نور کی روشنی سے مہکتے ہیں یہاں سے جا نے والے پھر پکے نما زی اور عبا دت گزار بن جا تے ہیں اُن کے جسموں سے عشقِ رسول ۖ اور سنت ِ نبوی ۖ کے چشمے پھو ٹتے ہیں اُن کے جسموں اور کردار سے پھو ٹنے والے نور سے ہزاروں لوگ بھی فیض یاب ہو تے ہیں دنیا جہاں سے آنے والے انسان جب یہاں سے پلٹ کر اپنے گھروں کو جا تے ہیں تو با قی زندگی مثالی اور نیکی سے بھر پور گزارتے ہیں یہاں سے جانے والے لوگ معاشرے کے لیے رول ما ڈل کا کردار ادا کر تے ہیں یقینا یہاں پر آنیوالے انسانوں کا یہاں پر نیا جنم ہو تا ہے اور وہ اگلی زندگی خدا اور رسول ۖ کی تعلیمات کے مطا بق گزارتے ہیں۔
Professor Mohammad Abdullah Bhatti
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org