تحریر: ایم سرور صدیقی اہلیان ِ وطن کو مبارک ہو۔۔۔نیا بجٹ آگیا ہے عام آمی کو دلی مبارک بادپیش کرنے کو دل چاہتا ہے کہ 300 یا اس سے زائد بجلی کے یونٹ استعمال کرنے والوں کو خوشحال قرار دیدیا گیا۔۔۔ اب تو ان کا شمار امیر لوگوں میں ہونے لگے گا یہ خوشی کی بات نہیں ہے کیا؟ جبکہ جس کا بل 75000 ہزار ہوا اس پر 10% انکم ٹیکس لگانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے امسال پیش کئے جانے والے بجٹ میں 13 کھرب 28 ارب کا خسارہ بتایا گیا ہے خود وزیر ِ خزانہ نے اعتراف کیا ہے کہ وہ ٹیکس وصولی کا ہدف پورا نہیں کر سکے اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اب پھر عوام کی شامت آنے والی ہے بجٹ کا خسارا اور ٹیکس کا ہدف پورا کرنے کیلئے انشاء اللہ عوام پر سائٹیفک طریقے سے ٹیکس لگانے کیلئے نئی نئی سکیمیں تیار کی جائیں گی۔
اسحق ڈار اورCBRحکام کی مصروفیات زیادہ ہوئیں تویقینا بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جائے گاہر حکومت اسی تیز بہدف نسخے کو بلا دریغ استعمال کرنے سے ذرا نہیں چوکتی بجٹ سے پہلے ہمارے وزیر باتدبیر اسحاق ڈار نے اعلان کیا ہے کہ اب ہر شخص کا شناختی کارڈ اس کا NTNہوگا اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہر شناختی کارڈ ہولڈر کسی نہ کسی انداز میں ٹیکس نیٹ میں آجائے گا۔اس بجٹ میں ایک اور کمال کا نسخہ تجویزکیا گیاہے کہ بجلی کے صارفین سے ایڈوانس ٹیکس لیا جائے یعنی ٹیکس ہی ٹیکس ۔۔۔اور ہر چیز مہنگی۔۔۔ حالات کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا موجودہ حکومت کے ایک سال کے دوران ہوشربا مہنگائی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں وزیر ِ ِخزانہ اسحق ڈارنے بھی تسلیم کیا ہے کہ غربت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے لوڈشیڈنگ کے باوجود بجلی کے بلوںمیں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
عام آدمی کا جینا دوبھرہوگیاہے۔۔۔ کوئی اس سوال کا جواب ۔۔۔ہمارے وزیر ِ ِخزانہ کے پاس؟؟؟ایک دور تھا جب بجٹ پیش کیا جاتا تو سال بھر قیمتوںمیں استحکام رہتا انتظامیہ اور صوبائی و وفاقی حکومتیں سختی سے گراں فروشوں کے خلاف ایکشن لینا اپنا فرض مجھتی تھیں اب تو حکومت بجٹ کا تو تکلف ہی کرتی ہے ورنہ پتہ ہی نہیں چلتا کب بجٹ آیا کب گیا؟نئے مالی سال کا آغاہو یا معمول کے حالات گرانی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے حسب ِ معمول اس مرتبہ پھر کہا جارہاہے کہ متوقع بجٹ میںکوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا پاکستان کا ہروزیر ِ خرانہ ہر سال غریب عوام کو خوش کرنے کیلئے ایسے ہی دعوے، ایسے ہی وعدے کرتا ہے۔
Budget
جناب!اسحاق ڈار صاحب ایسی باتیں نہ کریں غریبوں کو تو پہلے ہی مہنگائی نے مار کھاہے اب آپ خوشی سے مارنا چاہتے ہیں آپ تو اچھے بھلے ہوا کرتے تھے کب سے عوام کے دشمن بن گئے؟۔۔۔پاکستان جیسے ملک میں بجٹ کو کوئی خوفناک چیز سمجھا جاتاہے یہ جب بھی آتاہے ملک میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان امڈ آتاہے اب تو بجٹ اعدادو شمارکا گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری کا نام ہے اکثر وزیر ِ خرانہ جب بجٹ پیش کررہے ہوتے ہیں انہیں خود اندازہ نہیں ہوتاوہ کیا کہہ رہے ہیں۔۔جب سے حکومت نے اداروں اور محکموںکو خود مختاربنایا ہے انہیں شتربے مہارآزادی مل کئی ہے ان کا بااثر لوگوںپر تو کوئی زور نہیں چلتا لیکن انہوںنے غریبوں کا جینا ضرورمشکل کردیا ہے وہ سارا سال مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے سروسز چارجز بڑھاتے رہتے ہیں جیسے سوئی گیس کے گھریلو ارجنٹ کنکشن کی سیکورٹی فیس35000مقرر کردی گئی ہے دوسرا 25-20پہلے کنکشن لگوانے والوں سے پھر سیکورٹی کے نام پر پیسے بٹورے جارہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا تک نہیں ،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور بجلی کے نرخ تو ایک ماہ میں دو دو بار بڑھا دیئے جاتے ہیں عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت ،بڑے بڑے سیاستدانوں حتی کہ اپوزیشن رہنمائوں نے بھی عوام کی طرف آنکھیں بند کرلی ہیں۔حکمران عوامی مسائل اور مشکلات سے لاتعلق ہو چکے ہیں جب بھی بجٹ آتا ہے ناقدین، اپوزیشن اور حکومت مخالف رہنمائوںکو سستی شہرت حاصل کرنے ، دل کا غبار نکالنے یا بیان بازی کا ایک بہانہ میسر آ جاتاہے بجٹ کے حقیقی خدو خال پر کوئی غور کرنا پسند ہی نہیں کرتا اس ملک میں ہر روز منی بجٹ آتا ہے۔
ہر روز چیزوںکے نئے ریٹ عوام کا منہ چڑارہے ہوتے ہیں بنیادی طورپراس کی ذمہ دار حکومت ہے جس کی کسی بھی معاملہ پر گرپ نہیںہے یہی وجہ ہے کہ اب چھوٹے چھوٹے گروپ بھی حکومتی رٹ کیلئے چیلنج بن گئے ہیں اس ماحول میں بجٹ کا رونا کوئی کب تک سنتا رہے ،جب سے حکومت نے ہر15 دنوں بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقررکرنے کی نئی حکمت ِ عملی وضح کی ہے مہینے میں دو بار مہنگائی کی نئی لہر جنم لیتی ہے اوراس کی آڑ میں گراں فروشوںکو چیزیں مہنگی کرنے سے کون روک سکتاہے؟ روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے والی مہنگائی اور پے در پے منی بجٹ سے گھر گھر لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں ان حالات میں وزیر ِ خرانہ کا صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ نئے بجٹ میںکوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا دعوے کو حقیقت بنانے کیلئے کچھ نا گزیر اقدامات کرنا پڑتے ہیں کچھ بے رحم فیصلے بھی۔ اس کیلئے ماحول کو سازگار بنانا بھی حکومتی ذمہ داری ہے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے والی پالیسی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی بجٹ کی اہمیت اور افادیت تواس صورت ہی ممکن ہے کہ حکومت بالخصوص کھانے پینے اشیائ،ہر قسم کی یوٹیلٹی سروسز،ادویات کی قیمتیں الغرض ہر چیز کے نرخوں کا تعین ایک سال کیلئے مقرر کرے۔
کسی ادارے، محکمے یا نیشنل،ملٹی نیشنل کمپنی کو ایک سال سے پہلے قیمت بڑھانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے اس پر سختی سے عمل کروایا جائے تو نہ صرف ملکی معیشت مستحکم ہونے میں مدد ملے گی بلکہ غریب عوام بھی سکھ کا سانس لے گی ورنہ اس سے بہتر یہ ہے کہ حکومت ہر سال بجٹ پیش کرنے کا تکلف ہی نہ کرے تو وزیر ِ خرانہ کئی کڑوے کسیلے سوالات سے بچ سکتے ہیں عوام ہرسال حکومت سے امید کرتے ہیں کہ اب کی بار بجٹ میں اعدادو شمارکا گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری نہیں ہوگی غریبوںکی فلاح کیلئے حقیقی اقدامات کئے جائیں گے۔۔یہ ایسا بجٹ ثابت ہوگاجس سے عام آدمی کو ریلیف ملے گا ہم دعا گو ہیں کہ اللہ کرے ایسا ہی ہو حکمرانوں سے کوئی امید تو نہیں لیکن اللہ کے حضور دعا مانگنے میں ہرج کیاہے ۔ ایک بات ہم کہے بغیر نہیں رہ سکتے ٹیکس نیٹ میں اضافہ اور ٹیکس چوری کا خاتمہ کئے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں جناب!اسحاق ڈار صاحب ہمیں آپ کا پیش کردہ بجٹ قبول ہے لیکن ایک وعدہ کریں کہ اس کے بعد سال بھر کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا۔