نیا بجٹ مبارک

Budget

Budget

اہلیان ِ وطن کو مبارک ہو۔۔۔ نیا بجٹ آ گیا ہے پرچون فروشوں کو دلی مبارک۔۔۔ اب ان پر بھی ٹیکس لگ گیا ہے وہ ناراض نہ ہوں ٹیکس امیر دیتے ہیں اب تو ان کا شمار امیر لوگوں میں ہونے لگے گا یہ خوشی کی بات نہیں ہے کیا؟ امسال پیش کئے جانے والے بجٹ میں 1422 ارب کا خسارہ بتایا گیا ہے۔

خود وزیر ِ خزانہ نے اعتراف کیا ہے کہ وہ ٹیکس وصولی کا ہدف پورا نہیں کر سکے اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اب پھر عوام کی شامت آنے والی ہے بجٹ کا خسارا اور ٹیکس کا ہدف پورا کرنے کیلئے انشاء اللہ عوام پر سائٹیفک طریقے سے ٹیکس لگانے کیلئے نئی نئی سکیمیں تیار کی جائیں گی اسحق ڈار اورCBRحکام کی مصروفیات زیادہ ہوئیں تو یقینا بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جائے گا۔

ہر حکومت اسی تیز بہدف نسخے کو بلا دریغ استعمال کرنے سے ذرا نہیں چوکتی۔اس بجٹ میں ایک اور کمال کا نسخہ تجویزکیا گیاہے کہ بجلی کے صارفین سے ایڈوانس ٹیکس لیا جائے یعنی ٹیکس ہی ٹیکس ۔۔۔اور ہر چیز مہنگی۔۔۔ حالات کا بے لاگ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا موجودہ حکومت کے ایک سال کے دوران ہوشربا مہنگائی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں وزیر ِ ِخزانہ اسحق ڈارنے بھی تسلیم کیاہے کہ غربت میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے لوڈشیڈنگ کے باوجود بجلی کے بلوںمیں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

عام آدمی کا جینا دوبھر ہو گیا ہے ڈالر کی قدر میں کمی ہوئی ہے تو بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نیچے کیوں نہیں آئیں؟ ہے کوئی اس سوال کا جواب ۔۔۔ہمارے وزیر ِ ِخزانہ کے پاس؟؟؟ایک دور تھا جب بجٹ پیش کیا جاتا تو سال بھر قیمتوںمیں استحکام رہتا انتظامیہ اور صوبائی و وفاقی حکومتیں سختی سے گراں فروشوں کے خلاف ایکشن لینا اپنا فرض مجھتی تھیں اب تو حکومت بجٹ کا تو تکلف ہی کرتی ہے ورنہ پتہ ہی نہیں چلتا کب بجٹ آیا کب گیا؟نئے مالی سال کا آغاہو یا معمول کے حالات گرانی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے حسب ِ معمول اس مرتبہ پھر کہا جارہاہے کہ متوقع بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جا رہا عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا۔

پاکستان کا ہروزیر ِ خرانہ ہر سال غریب عوام کو خوش کرنے کیلئے ایسے ہی دعوے، ایسے ہی وعدے کرتا ہے جناب! اسحاق ڈار صاحب ایسی باتیں نہ کریں غریبوں کو تو پہلے ہی مہنگائی نے مار کھاہے اب آپ خوشی سے مارنا چاہتے ہیں آپ تو اچھے بھلے ہوا کرتے تھے کب سے عوام کے دشمن بن گئے؟۔۔۔پاکستان جیسے ملک میں بجٹ کو کوئی خوفناک چیز سمجھا جاتا ہے یہ جب بھی آتاہے ملک میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان امڈ آتاہے اب تو بجٹ اعدادو شمارکا گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری کا نام ہے اکثر وزیر ِ خرانہ جب بجٹ پیش کررہے ہوتے ہیں انہیں خود اندازہ نہیں ہوتاوہ کیا کہہ رہے ہیں۔۔جب سے حکومت نے اداروں اور محکموںکو خود مختاربنایا ہے انہیں شتربے مہارآزادی مل کئی ہے ان کا بااثر لوگوںپر تو کوئی زور نہیں چلتا لیکن انہوںنے غریبوں کا جینا ضرور مشکل کر دیا ہے وہ سارا سال مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے سروسز چارجز بڑھاتے رہتے ہیں جیسے سوئی گیس کے گھریلو ارجنٹ کنکشن کی سیکورٹی فیس 35000 مقرر کردی گئی ہے دوسرا 25-20 پہلے کنکشن لگوانے والوں سے پھر سیکورٹی کے نام پر پیسے بٹورے جارہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا تک نہیں، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور بجلی کے نرخ تو ایک ماہ میں دو دو بار بڑھا دیئے جاتے ہیں عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت ،بڑے بڑے سیاستدانوں حتی کہ اپوزیشن رہنمائوں نے بھی عوام کی طرف آنکھیں بند کرلی ہیں۔

Petroleum Products

Petroleum Products

حکمران عوامی مسائل اور مشکلات سے لاتعلق ہو چکے ہیں جب بھی بجٹ آتا ہے ناقدین، اپوزیشن اور حکومت مخالف رہنمائوںکو سستی شہرت حاصل کرنے ، دل کا غبار نکالنے یا بیان بازی کا ایک بہانہ میسر آ جاتاہے بجٹ کے حقیقی خدو خال پر کوئی غور کرنا پسند ہی نہیں کرتا اس ملک میں ہر روز منی بجٹ آتاہے، ہرروز چیزوںکے نئے ریٹ عوام کا منہ چڑارہے ہوتے ہیں بنیادی طورپراس کی ذمہ دار حکومت ہے جس کی کسی بھی معاملہ پر گرپ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اب چھوٹے چھوٹے گروپ بھی حکومتی رٹ کیلئے چیلنج بن گئے ہیں اس ماحول میں بجٹ کا رونا کوئی کب تک سنتا رہے ،جب سے حکومت نے ہر15 دنوں بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقررکرنے کی نئی حکمت ِ عملی وضح کی ہے مہینے میں دو بار مہنگائی کی نئی لہر جنم لیتی ہے اوراس کی آڑ میں گراں فروشوںکو چیزیں مہنگی کرنے سے کون روک سکتا ہے؟ روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے والی مہنگائی اور پے در پے منی بجٹ سے گھر گھر لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں ان حالات میں وزیر ِ خرانہ کا صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ نئے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا دعوے کو حقیقت بنانے کیلئے کچھ نا گزیر اقدامات کرنا پڑتے ہیں کچھ بے رحم فیصلے بھی۔ اس کیلئے ماحول کو سازگار بنانا بھی حکومتی ذمہ داری ہے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے والی پالیسی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی بجٹ کی اہمیت اور افادیت تواس صورت ہی ممکن ہے کہ حکومت بالخصوص کھانے پینے اشیائ،ہر قسم کی یوٹیلٹی سروسز،ادویات کی قیمتیں الغرض ہر چیز کے نرخوں کا تعین ایک سال کیلئے مقرر کرے،کسی ادارے، محکمے یا نیشنل، ملٹی نیشنل کمپنی کو ایک سال سے پہلے قیمت بڑھانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے اس پر سختی سے عمل کروایا جائے تو نہ صرف ملکی معیشت مستحکم ہونے میں مدد ملے گی۔

غریب عوام بھی سکھ کا سانس لے گی ورنہ اس سے بہتر یہ ہے کہ حکومت ہر سال بجٹ پیش کرنے کا تکلف ہی نہ کرے تو وزیر ِ خرانہ کئی کڑوے کسیلے سوالات سے بچ سکتے ہیں عوام ہرسال حکومت سے امید کرتے ہیں کہ اب کی بار بجٹ میں اعدادو شمار کا گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری نہیں ہوگی غریبوں کی فلاح کیلئے حقیقی اقدامات کئے جائیں گے۔۔یہ ایسا بجٹ ثابت ہوگاجس سے عام آدمی کو ریلیف ملے گا ہم دعا گو ہیں کہ اللہ کرے ایسا ہی ہو حکمرانوں سے کوئی امید تو نہیں لیکن اللہ کے حضور دعا مانگنے میں ہرج کیاہے ۔ ایک بات ہم کہے بغیر نہیں رہ سکتے ٹیکس نیٹ میں اضافہ اور ٹیکس چوری کا خاتمہ کئے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں جناب!اسحاق ڈار صاحب ہمیں آپ کا پیش کردہ بجٹ قبول ہے لیکن ایک وعدہ کریں کہ اس کے بعد سال بھر کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا۔

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی