جرمن (اصل میڈیا ڈیسک) کووڈ 19 کے بارے میں روایتی میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی خبروں کا انبار لگا ہوا ہے لیکن ہم کس خبر پر یقین کریں؟ تبصرہ نگار مارٹین مونو کے مطابق اس خطرناک وقت میں قابل اعتماد نیوز اداروں پر ہی اعتبار کیا جا سکتا ہے۔
مارٹین مونو کے مطابق گزشتہ کئی ہفتوں سے کاروبار دنیا تھم سا گیا ہے لیکن احتیاط کے باوجود یہ مشکل ہے کہ ہم اپنے ارد گرد پوشیدہ خطرے کا اندازہ لگا سکیں۔ بالخصوص ان دنوں میں جب بہار عروج پر ہے اور پرندوں کی دلکش آوازیں ہمیں مسرور کر رہی ہیں۔
دنیا میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں، جن کا ادراک حواس سے کیا جانا ممکن نہیں۔ جیسا کہ ماحولیاتی تبدیلیاں، ریڈیشن اور بالخصوص عالمی وبائیں۔ جرمن ماہر سماجیات نکولاس لوہمان نے کافی عرصہ قبل کہا تھا کہ ایسی چیزیں صرف کمیونیکشن یعنی ابلاغ سے سمجھی جا سکتی ہیں۔
اور جب بات ہوتی ہے نئے کورونا وائرس سے جنم لینے والی عالمی وبا کووڈ انیس کی تو اس بارے میں حقائق جاننے کے لیے بھی ہمیں خبروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بالخصوص اس وقت معلومات کے حصول کے لیے میڈیا کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے، جب ہمارا کوئی قریبی رشتہ دار یا دوست اس وبا کا شکار نہیں ہوا ہے، کیونکہ اس صورت میں ہم اس تکلیف اور تجربے کو ذاتی طور پر سمجھنے کے قابل ہی نہیں ہو سکتے۔
خبروں سے ہی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس عالمی وبا کی وجہ سے کتنے افراد متاثر یا ہلاک ہوئے، یہ کس قدر موزی ہے اور اس کے معیشت پر کيا اثرات پڑ رہے ہیں اور یہ کہ کتنے لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف ہم گھروں میں قید ہیں اور تصاویر اور ویڈیوز میں بیابان سڑکوں اور مارکٹیوں کے امیجز دیکھ رہے ہیں۔ کبھی کبھار خریداری کی غرض سے باہر جاتے ہوئے ہمیں اس صورتحال کا صرف حسیاتی تجزبہ ہی ہو سکتا ہے۔
اس صورتحال میں نیوز ادارے ایک مرتبہ پھر ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ صرف اسی لیے نہیں کہ یہ نشریاتی ادارے ہمیں مطلع کر رہے ہیں کہ حکومتی پالیسیاں کیا ہیں اور ہمیں صورتحال میں کیسے ردعمل ظاہر کرنا چاہیے بلکہ خبروں کی طرف متوجہ ہونے کی دیگر کئی وجوہات بھی ہیں۔
کیا ہم خوفزدہ ہیں یا ہمیں فکر ہی نہیں؟ یا ہم ڈپریشن کا شکار ہیں یا پراعتماد ہیں کہ صورتحال جلد ہی بہتر ہو جائے گی؟ اس وقت لیکن موضوع ایک ہی ہے یعنی کووڈ انیس کی عالمی وبا۔ جدید فلسفے کے بانی ڈیکارٹ نے کہا تھا کہ ‘میں سوچتا ہوں، اس لیے میں وجود رکھتا ہوں‘ لیکن اس صورتحال میں اس شہرہ آفاق جمعلے کو یوں تبدیل کیا جا سکتا ہے کہ ‘میں کورونا وائرس کے بارے میں خبریں پڑھتا/ دیکھتی ہوں، اس لیے میں ہوں‘۔
اس صورتحال میں میڈیا اداروں سے رجوع کرنے والے افراد کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے۔ ڈی ڈبلیو کی آن لائن صارفین میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھا جا رہا ہے جبکہ ٹیلی وژن دیکھنے والوں کی شرح بھی بڑھی ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ کیا ہمیں قابل بھروسہ معلومات موصول ہو رہی ہیں؟
دوسری طرف سوشل میڈیا جعلی خبروں میں ڈوب چکا ہے۔ صرف اس بارے میں ہی ہزاروں آرٹیکلز اور ویڈیوز موجود ہیں کہ لہسن کس طرح کورونا وائرس کا شافی علاج ممکن بنا سکتا ہے۔ یہ پلیٹ فارمز حقیقی طور پر جھوٹی خبریں و معلومات پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور یہ بات لوگوں کی زندگی کو خطرات میں ڈال سکتی ہے۔
فیس بک، واٹس ایپ، ٹویٹر اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بھرپور کوشش ہے کہ غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکا جائے لیکن یہ ممکن نہیں کہ مکمل طور پر وہ اس پیچیدہ کام میں سرخرو ہوں۔
اس صورتحال کی سنگینی کی وجہ سے بہت سے لوگ معلومات کے حصول کی خاطر روایتی میڈیا اداروں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک حالیہ اسٹڈی کے مطابق ارجنٹائن، جرمنی، جنوبی کوریا، اسپین، امریکا اور برطانیہ کے عوام مصدقہ خبروں اور معلومات کے لیے سوشل میڈیا کے بجائے نیوز اداروں پر زیادہ اعتماد و بھروسہ کرنے لگے ہیں۔
نیوز اداروں کی نسبت اب لوگ مشہور ہیلتھ آرگنائزئشنز کے نمائندوں کی طرف سے فراہم کردہ معلومات پر زیادہ اعتبار کر رہے ہیں۔ لیکن یہ ماہرین معلومات کہاں سے حاصل کرتے ہیں؟ یقینی طور پر نیوز اداروں کی طرف سے فراہم کردہ خبروں سے ہی۔ اس مطالعہ کے مطابق کم تعلیم یافتہ طبقہ البتہ اب بھی سوشل میڈیا سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش میں ہے.
تبصرہ نگار مارٹین مونو کے مطابق ہم ایک متضاد صورت حال کا شکار ہیں، جہاں آزاد نیوز اداروں کی طرف سے فراہم کردہ معلومات زیادہ اہم بن چکی ہیں جبکہ دوسرے مالیاتی مسائل کی وجہ سے ان اداروں کی بقا خطرے سے دوچار ہے۔
اس صورتحال میں ہم ایک کام کر سکتے ہیں کہ معلومات حاصل کرنے کی خاطر پیسے ادا کریں۔ قابل بھروسہ میڈیا اداروں کو رقوم ادا کرنا ایک اچھی بات ہو سکتی ہے، جس سے ان کے مالیاتی مسائل بھی حل ہو سکیں گے اور آپ کو قابل اعتبار خبریں بھی مل سکیں گی۔
نیا کورونا وائرس، میڈیا اور قابل اعتماد معلومات: تبصرہ
Posted on April 21, 2020 By Majid Khan اہم ترین, بین الاقوامی خبریں
Shortlink:
Coronavirus Media
جرمن (اصل میڈیا ڈیسک) کووڈ 19 کے بارے میں روایتی میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی خبروں کا انبار لگا ہوا ہے لیکن ہم کس خبر پر یقین کریں؟ تبصرہ نگار مارٹین مونو کے مطابق اس خطرناک وقت میں قابل اعتماد نیوز اداروں پر ہی اعتبار کیا جا سکتا ہے۔
مارٹین مونو کے مطابق گزشتہ کئی ہفتوں سے کاروبار دنیا تھم سا گیا ہے لیکن احتیاط کے باوجود یہ مشکل ہے کہ ہم اپنے ارد گرد پوشیدہ خطرے کا اندازہ لگا سکیں۔ بالخصوص ان دنوں میں جب بہار عروج پر ہے اور پرندوں کی دلکش آوازیں ہمیں مسرور کر رہی ہیں۔
دنیا میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں، جن کا ادراک حواس سے کیا جانا ممکن نہیں۔ جیسا کہ ماحولیاتی تبدیلیاں، ریڈیشن اور بالخصوص عالمی وبائیں۔ جرمن ماہر سماجیات نکولاس لوہمان نے کافی عرصہ قبل کہا تھا کہ ایسی چیزیں صرف کمیونیکشن یعنی ابلاغ سے سمجھی جا سکتی ہیں۔
اور جب بات ہوتی ہے نئے کورونا وائرس سے جنم لینے والی عالمی وبا کووڈ انیس کی تو اس بارے میں حقائق جاننے کے لیے بھی ہمیں خبروں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ بالخصوص اس وقت معلومات کے حصول کے لیے میڈیا کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے، جب ہمارا کوئی قریبی رشتہ دار یا دوست اس وبا کا شکار نہیں ہوا ہے، کیونکہ اس صورت میں ہم اس تکلیف اور تجربے کو ذاتی طور پر سمجھنے کے قابل ہی نہیں ہو سکتے۔
خبروں سے ہی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس عالمی وبا کی وجہ سے کتنے افراد متاثر یا ہلاک ہوئے، یہ کس قدر موزی ہے اور اس کے معیشت پر کيا اثرات پڑ رہے ہیں اور یہ کہ کتنے لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف ہم گھروں میں قید ہیں اور تصاویر اور ویڈیوز میں بیابان سڑکوں اور مارکٹیوں کے امیجز دیکھ رہے ہیں۔ کبھی کبھار خریداری کی غرض سے باہر جاتے ہوئے ہمیں اس صورتحال کا صرف حسیاتی تجزبہ ہی ہو سکتا ہے۔
اس صورتحال میں نیوز ادارے ایک مرتبہ پھر ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ صرف اسی لیے نہیں کہ یہ نشریاتی ادارے ہمیں مطلع کر رہے ہیں کہ حکومتی پالیسیاں کیا ہیں اور ہمیں صورتحال میں کیسے ردعمل ظاہر کرنا چاہیے بلکہ خبروں کی طرف متوجہ ہونے کی دیگر کئی وجوہات بھی ہیں۔
کیا ہم خوفزدہ ہیں یا ہمیں فکر ہی نہیں؟ یا ہم ڈپریشن کا شکار ہیں یا پراعتماد ہیں کہ صورتحال جلد ہی بہتر ہو جائے گی؟ اس وقت لیکن موضوع ایک ہی ہے یعنی کووڈ انیس کی عالمی وبا۔ جدید فلسفے کے بانی ڈیکارٹ نے کہا تھا کہ ‘میں سوچتا ہوں، اس لیے میں وجود رکھتا ہوں‘ لیکن اس صورتحال میں اس شہرہ آفاق جمعلے کو یوں تبدیل کیا جا سکتا ہے کہ ‘میں کورونا وائرس کے بارے میں خبریں پڑھتا/ دیکھتی ہوں، اس لیے میں ہوں‘۔
اس صورتحال میں میڈیا اداروں سے رجوع کرنے والے افراد کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے۔ ڈی ڈبلیو کی آن لائن صارفین میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھا جا رہا ہے جبکہ ٹیلی وژن دیکھنے والوں کی شرح بھی بڑھی ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ کیا ہمیں قابل بھروسہ معلومات موصول ہو رہی ہیں؟
دوسری طرف سوشل میڈیا جعلی خبروں میں ڈوب چکا ہے۔ صرف اس بارے میں ہی ہزاروں آرٹیکلز اور ویڈیوز موجود ہیں کہ لہسن کس طرح کورونا وائرس کا شافی علاج ممکن بنا سکتا ہے۔ یہ پلیٹ فارمز حقیقی طور پر جھوٹی خبریں و معلومات پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور یہ بات لوگوں کی زندگی کو خطرات میں ڈال سکتی ہے۔
فیس بک، واٹس ایپ، ٹویٹر اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بھرپور کوشش ہے کہ غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکا جائے لیکن یہ ممکن نہیں کہ مکمل طور پر وہ اس پیچیدہ کام میں سرخرو ہوں۔
اس صورتحال کی سنگینی کی وجہ سے بہت سے لوگ معلومات کے حصول کی خاطر روایتی میڈیا اداروں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک حالیہ اسٹڈی کے مطابق ارجنٹائن، جرمنی، جنوبی کوریا، اسپین، امریکا اور برطانیہ کے عوام مصدقہ خبروں اور معلومات کے لیے سوشل میڈیا کے بجائے نیوز اداروں پر زیادہ اعتماد و بھروسہ کرنے لگے ہیں۔
نیوز اداروں کی نسبت اب لوگ مشہور ہیلتھ آرگنائزئشنز کے نمائندوں کی طرف سے فراہم کردہ معلومات پر زیادہ اعتبار کر رہے ہیں۔ لیکن یہ ماہرین معلومات کہاں سے حاصل کرتے ہیں؟ یقینی طور پر نیوز اداروں کی طرف سے فراہم کردہ خبروں سے ہی۔ اس مطالعہ کے مطابق کم تعلیم یافتہ طبقہ البتہ اب بھی سوشل میڈیا سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش میں ہے.
تبصرہ نگار مارٹین مونو کے مطابق ہم ایک متضاد صورت حال کا شکار ہیں، جہاں آزاد نیوز اداروں کی طرف سے فراہم کردہ معلومات زیادہ اہم بن چکی ہیں جبکہ دوسرے مالیاتی مسائل کی وجہ سے ان اداروں کی بقا خطرے سے دوچار ہے۔
اس صورتحال میں ہم ایک کام کر سکتے ہیں کہ معلومات حاصل کرنے کی خاطر پیسے ادا کریں۔ قابل بھروسہ میڈیا اداروں کو رقوم ادا کرنا ایک اچھی بات ہو سکتی ہے، جس سے ان کے مالیاتی مسائل بھی حل ہو سکیں گے اور آپ کو قابل اعتبار خبریں بھی مل سکیں گی۔
by Majid Khan
Nasir Mehmood - Chief Editor at GeoURDU.com