لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر روز ایک نیا سیلاب آتا۔ کبھی پانی کا، تو کبھی لاشوں کا، اور مہنگائی کا سیلاب تو روکنے والاہی نہیں، کبھی سیاست میں الزامات کی بارش ہوتی تھی۔ جس کیلئے سیاستدانوں نے ماہر بیانات بھی تیار کر رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن اب الزامات کی بارش بھی سیلاب کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ سیلابوں کو پیدا کرنے کیلئے سیاست بھی عروج پرہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورت حال رہی تو سیلابوں کو طوفانوں میں تبدیل ہونے میں وقت نہیں لگے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ پنجاب میں سیلابی ریلوں سے 700 دیہات پانی میں غرق ہوگئے۔ شدید بارشوں کے باعث نالہ ڈیک میں طغیانی سے کئی دیہات میں پانی داخل ہو چکا ہے۔ اس نالے کا پانی اب لاہور کے مضافاتی علاقوں میں بھی پہنچ گیا۔ لاکھوں متاثرین کھلے آسمان تلے زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔
جہاں بنیادی ضروریات زندگی کی قلت سے متاثرین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔ مون سون کی موسلا دھار بارشوں کے باعث نالہ ڈیک میں طغیانی آ گئی۔ شہری گھروں کی چھتوں پر محصور ہو کر رہ گئے۔ گھروں میں محصور شہریوں کو شکوہ ہے کہ کئی روز گزرنے کے باوجود حکومت کی جانب سے کوئی امداد ان تک نہیں پہنچی۔
متاثرہ علاقوں میں پانی کھڑا ہونے سے مختلف امراض پھیلنے کا بھی خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ ان علاقوں کے مکین اپنی مددآپ کے تحت نقل مکانی کررہے ہیں۔ قومی ہنگامی امدادی ادارے کی جاری رپورٹ کے مطابق سیلاب کے باعث ہونے والے واقعات میں اب تک 111 افراد جاں بحق اور 129 زخمی ہوئے ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 48 امدادی کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔
جن کے ذریعے متاثرین کو ضروری اشیا فراہم کی جارہی ہیں۔ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں مجموعی طور پر 4 لاکھ افراد متاثر بھی ہوئے ہیں (این ڈی ایم اے) کی طرف سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ ہلاکتیں صوبہ پنجاب میں ہوئیں۔ حالیہ بارشیں اور سیلاب بھی ناصرف جانی و مالی نقصانات کا سبب بنے بلکہ زراعت کے شعبے سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے۔
Mohammad Shahbaz Sharif
کہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں چاول اور گنے کی فصلوں کی پیدوار بھی متاثر ہو گی۔ وزیراعلی پنجاب محمد شہباز شریف کہتے ہیں کہ سیلاب متاثرین کی امداد و بحالی سب کاموں سے بڑھ کر عزیز ہے اور خلق خدا کی خدمت ہی میری سیاست ہے اسی لئے سیلاب زدہ علاقوں کی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے خود دورے کر رہا ہوں تاکہ مصیبت میں گھرے بہن بھائیوں کی مشکلات کا فی الفور ازالہ کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جاسکیں۔
آزمائش کی گھڑی میں سیلاب متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ انتظامیہ اور متعلقہ ادارے سیلاب متاثرین کی امداد و بحالی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں۔ آپ کے اس خادم نے کل بھی عوام کا ساتھ دیا تھا اور آج بھی مشکل کی گھڑی میں وہ سیلاب زدہ بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہمارا جینا مرنا عوام کے ساتھ ہے۔ صوبے میں جہاں بھی سیلاب آیا ہے۔
وہاں پر خود جا کر صورتحال کا جائزہ لے رہا ہوں اور امدادی کاموں کی خود نگرانی کر رہا ہوں۔ جب تک سیلاب کا پانی متاثرہ علاقوں سے واپس نہیں جاتا اور متاثرہ افراد اپنے اپنے گھروں میں آباد نہیں ہو جاتے اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ گزشتہ روزسیاسی رہنماں کی جانب حکومت کی طرف سے سی این جی، پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں مجوزہ اضافے پر شدیدردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے۔
کہ حکومت کی طرف سے آئے روز آنے والے منی بجٹ نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ سالانہ بجٹ میں ٹیکسوں کی بھرمارکے بعد بھی حکومت نے بجلی، پیٹرولیم مصنوعات اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کو معمول بنا لیاہے جس سے غریب کا جینا دوبھر ہو گیا ہے اور اب تیل کی قیمتوں میں 5 روپے فی لیٹر اضافہ کرکے وہ عوام کو مہنگائی کے ایک نہ ختم ہونے والے سیلاب کے اندر دھکیلنا چاہتی ہے۔
تاکہ غریب کے تن پر موجود کپڑے بھی اتار لیے جائیں۔ بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ نے تمام کاروبار زندگی مفلوج کردیا ہے، فیکٹریا ں اور کارخانے بند ہونے سے لاکھوں مزدور اور محنت کش بے روزگار ہوچکے ہیں اوران کے گھروں کے چولہے بجھ چکے ہیں۔ لاکھوں خاندان غربت کی وجہ سے فاقہ کشی پر مجبور ہیں لیکن حکمرانوں کے شاہانہ اخراجات میں کوئی کمی نہیں آئی ،صرف غریب عوام کوہی قربانی کا بکرا بنا یا جا رہاہے۔
حکومت کی چند ماہ کی کار کردگی انتہائی مایوس کن ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کے تمام تر حکومتی دعوے ریت کی دیوار ثابت ہوئے ہیں۔ اگر حکومت نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو لوگ بہت جلد سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوجائیں گے۔