تحفظ ختم نبوت ۖہر مسلمان کا ایمان ہے اور اس میں کسی بھی شخص، گروہ، ملک یا قوت کے دبائو کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان میں مذہب کے نام پر سیاست سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کیا مذہب کو بطور ”سیاست” مسلمان بالخصوص پاکستان سے تعلق رکھنے والے ہی استعمال کرتے ہیں یا پھر مذہب کو اپنے مقاصدکے لیے استعمال کرنے کا رجحان یا روش قریباً دنیا بھر میں مختلف اشکال میں موجود ہے۔ سب سے پہلے ہر مسلمان پر مومن ہونے کے لیے پہلا فرض یہی ہے کہ وہ دل سے تسلیم کرے اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد اور اس کے برابر کا کوئی نہیں ہے۔ حضرت محمدۖ خاتم النبین ہیں، کیونکہ یہ وہ الہامی قانون ہے جو تاقیا مت تبدیل نہیں ہوسکتا۔ رب العالمین نے بنی نوع انسان کے تمام مذاہب کو آگاہ کردیا ہے کہ حضرت محمد ۖ کے بعد کوئی نبی و رسول نہیں آیا گا۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وہ آخری کتاب ہے جس کے بعد تاقیامت مزید کوئی الہامی کتاب نہیں اتاری جائے گی۔ جب کوئی نامرادشخص یا جماعت نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرتی ہے یا گستاخانہ مواد سامنے آتا ہے تو اس سے مسلم امہ کے مذہبی جذبات کو بے پناہ ٹھیس پہنچتی ہے، اُن کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ مسلم امہ کو اس سے بھی شدید تکلیف ہوتی ہے جب کوئی مسلم عقائد کے برخلاف عقیدہ اختیار کرنے کے بعد ”زندیق” بن جاتا ہے، لیکن اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لیے مسلم عقائد کو اختیار کرکے ظاہر کرتا ہے کہ مسلم امہ میں کوئی مخصوص ‘گروپ’ اُن کے خلاف ہے۔
ختم نبوت کے خلاف سازشوں کو طشت ازبام کرنے اور امت مسلمہ کو ایسی سازشوں سے آگاہ رکھنے کے لیے باقاعدہ پلیٹ فارم تحریک تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ختم نبوت رابطہ کمیٹی کے نام سے موجود ہیں۔ تحریک لبیک نے بھی تحفظ ختم نبوتۖ کے حوالے سے اپنا ایک ایسا موثر کردار ادا کیا ہے، جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ علمائِ حق کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو کسی بھی فرقے یا مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو برہان و دلیل سے قائل کرتے رہتے ہیں کہ ختم نبوتۖ پر مسلم امہ کے کامل یقین ہونے کی کیا وجوہ ہیں۔ عدم تشدد و برہان و دلیل کے ساتھ قائل کرنے والے ایسے علما حق اور غیر متنازع فورم دنیا بھر میں موجود ہیں۔ ختم نبوت ۖکے خلاف اٹھنے والے ہر فتنے کا جواب پُرامن طریقے سے دیا جاتا ہے۔
انفرادی حیثیت میں اگر کوئی شخص ایسا فعل کرجاتا ہے جو کسی گروہ کے لیے قابل قبول نہ ہو تو اس میں اس غیر متنازع پلیٹ فارم کا کوئی قصور نہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ایسے پُرامن پلیٹ فارمز کے لاکھوں کروڑوں داعی کیا پُرتشدد ہوکر کسی بھی گستاخ کو چھوڑ سکتے تھے۔ اس کا واحد جواب کیا ہے، اس سے کوئی لاعلم نہیں۔ اسلام سلامتی، امن و پیار کا دین ہے، جس میں صرف امن، امن اور امن و سلامتی ہے۔
یہاں بات صرف پاکستان کی ہی نہیں بلکہ اسے عالمی تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آخر کیا وجوہ ہیں کہ بیشتر ممالک، اسلام کے خلاف ہونے والی ساز شوں کو روکنے کے بجائے اسے فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ پُرامن معاملات کو اشتعال انگیزی کی طرف لے جاتے ہیں۔ نائن الیون کی ہی مثال لے لیں کہ ایک غیر حقیقی مفروضے کی بنیاد پر نائن الیون حملے میں 3 ہزار مقامی اور غیر ملکی باشندے مارے گئے اور 6 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے، لیکن اس کے مقابلے میں 7 اکتوبر، 2001 ئکو امریکا نے افغانستان پر حملہ کردیا۔ اب تک امریکا اپنی جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے لاکھوں انسانوں کی جانیں لے چکا ہے۔ ایک امریکی یونیورسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق 2001 سے اب تک پاکستان اور افغانستان میں دو لاکھ سے زائد افراد ہلاک جب کہ اتنے ہی زخمی ہوچکے ہیں۔ عراق میں 10لاکھ عراقیوں کو نسل کشی میں ہلاک کیا جاچکا ہے۔ پاکستان امریکی حلیف بننے کے ”جرم” میں اب تک 83ہزار سے زائد پاکستانیوں کی دہشت گردی کے مختلف واقعات میں قیمتی جانوں کی قربانی دے چکا ہے۔ نائن الیون نے امریکا کی پیشگی حملوں کی پالیسی یعنی ‘بش ڈاکٹرائن’ کو جنم دیا اور افغانستان، شمالی کوریا، عراق اور ایران ‘برائی کا محور’ قرار پائے اور اسی پالیسی کے تحت امریکا نے ان ممالک میں کارروائیوں کا آغاز کیا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 3 ہزار امریکیوں کے بدلے امریکا نے لاکھوں افراد کو ہلاک کردیا، لاکھوں زخمی اور معذور جب کہ ہزاروں گرفتار ہوئے، اس کے علاوہ گوانتاناموبے اور ابوغریب جیسے بدنام زمانہ عقوبت خانے وجود میں آئے۔ امریکا نے جس طرح مسلم ممالک کو خانہ جنگیوں میں اپنی سازشوں سے الجھایا ہوا ہے اور اسلحے کی فروخت سے اپنی کمزور معیشت کو مسلسل مضبوط کررہا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نائن الیون کا واقعہ دراصل مسلم ممالک کی دولت، وسائل پر قبضہ اور عالمی استعمار بن کر سودی نظام کو بچانے کے لیے مذموم منصوبہ تھا۔ اپنے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے اپنی ناکام پالیسیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالنا امریکا کی عادت ہے۔ امریکا بُش ڈاکٹرائن پر ابھی تک عمل پیرا ہے، لیکن اس کا فلسفہ? قوت بُش ڈاکٹرائن کی طرح ناکام ہورہے ہیں، جس کا ملبہ دوسروں پر گرا کر اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔انتہا پسندی و دہشت گردی سے متاثر بھی مسلمان ہورہے ہیں اور دہشت گرد، انتہا پسند اور شدت پسند بھی وہی کہلائے جاتے ہیں۔
مسلمانوں کے عقائد کی جب تضحیک کی جاتی ہے تو اس پر ردعمل کو بھی شدت پسندی قرار دے دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے ملنے والے حقوق کی کئی قابل قدر مثالیں موجود ہیں، لیکن جب کوئی گروہ اٹھ کر یہ کہے کہ میں تو حضورۖ کو آخری نبی نہیں مانتا، لیکن میں پھر بھی مسلمان ہوں، قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب نہیں مانتا، لیکن مسلمان ہوں تو اس پر کسی فاتر العقل کو کہا جائے کہ یہ تو غیر مسلم ہے، تو وہ پہلے یہ کہے کہ غیر مسلم کو غیر مسلم کہنا شدت پسندی ہے اور پھر اس کی ہمنوائی میں نام نہاد دانشور اٹھ کھڑے ہوں یا استعفیٰ دیتے ہوں کہ ”مذہب” کے نا م پر احتجاج غیر مناسب ہے۔ نومنتخب حکومت سے بھی یہی مطالبہ ہے کہ ایسے اقدامات کرنے میں جلد بازی کرنے سے امت مسلمہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے گریز کریں۔ علمائِ حق کے مطابق، نئی حکومت نے کئی حساس معاملات ایک ساتھ چھیڑ دیے ہیں، جس پر انہیں سخت تحفظات ہیں۔ نئی حکومت اپنے مینڈیٹ سے تجاوز نہ کرے تو یہی ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔