تحریر : قادر خان افغان محض چار سالہ سیاسی تجربے اور معاشی امور کی حامل و ماہر شخصیت محمد زبیر عمر کو مسلم لیگ ن کے دیگر سنیئر سیاست دانوں پر فوقیت دیتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے گورنر سندھ نا مزد کر دیا۔ حسب توقع پی پی پی اور ایم کیو ایم کی جانب سے اعترضات تو آنے ہی تھے کہ انھیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ان کا کہنا تو ایسا ہے جیسے یہ خود اپنی پارٹی کے ذمے داروں و عہدیداروں کو نامزد کرتے وقت اپنی جماعت کے کارکنان کو اعتماد میں لیتے ہیں،حالاںکہ فرد واحد کی خواہش پر چلنے والی پاکستان کی تقریباََ تمام سیاسی جماعتوں میں یہی طریق کار وضع ہے کہ اُن کے نزدیک عہدے اور ذمے داروں کیلئے پارٹی کے سربراہ کے احکامات کی اہمیت ہوتی ہے ، انھیں ایسے وقت میں کارکنان کی جدوجہد ، قربانیوں اور نظریئے کے ساتھ جڑے رہنے سے اُس وقت تک سروکار نہیں ہوتا جب تک انتخابات نہ آ جائیں۔
پاکستان میں وزیر اعظم کو پھانسی پر چڑھایا گیا ، سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر پارٹی کی وفاداری کی وجہ سے توہین عدالت کے الزام میں وزارت عظمی سے ہاتھ دھونے پڑے ، لیکن ابھی تک کوئی ایسی مثال سامنے نہیں آئی ہے کہ کرپشن کے الزام میں کسی با اثر کو باعث عبرت بنایا گیا ہو۔اسلئے ہمیں اپنے ملک کے زمینی حقایق کو مد نظر رکھتے ہوئے سندھ کے نئے گورنر سے زیادہ توقعات وابستہ کرلینا مناسب نہیں معلوم ہوتا ، لیکن سندھ کی سیاست میں نئے گورنر ، (جو قومی اداروں کو نجکاری کرنے کے ماہر تصور کئے جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کی فیملی کے پانامہ کرپشن کیس میں ماہر دفاع مانے جاتے ہیں )، محض چار سال میں سیاسی ترقی کی مدارج اس قدر تیزی سے عبور کئے ہیں ، جو حیران کن ہیں ، 2012میں پاکستان مسلم گ ن میں شمولیت اختیار کی ، حکمران جماعت بنتے ہی میاں نواز شریف نے انھیں پہلے بورڈ آف انوسیٹمنٹ کا چیئرمین بنایا تو 2013میں وزیر مملکت کا درجہ دیکر نجکاری کمیشن کا چیئرمین تعینات کردیا ۔نئے گورنر کے والد جنرل غلام عمرکا فوج سے رہا ہے اور وہ غیر متنازعہ شخصیت مانے جاتے ہیں ۔یحیٰی خان کے نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری کے علاوہ ڈی جی ملڑی آپریشن کے عہدے پر بھی فائز رہے ہیں ۔ گورنر سندھ محمد زبیر عمر کے والد تو غیر متنازعہ ہیں لیکن ان کے بھائی اسد عمر( جو تحریک انصاف کے ایک اہم ستون ہیں )، میاں نواز شریف کے سخت مخالف ہیں۔
لیکن یہاں نئے گورنر محمدزبیر عمر کا رویہ پاکستان پیپلز پارٹی کیساتھ کیسا رہتا ہے ، یہ ضرور قابل دید و شنیدرہے گا ۔ کیونکہ پی پی پی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے ان کے والد جنرل غلام عمر کو برطرف کیا تھا تو پانچ سال قید میں بھی رہے تھے ۔ یقینی طور پر نئے گورنر سندھ کو اپنے والد کے برطرفی اور سزا کے داغ کو فراموش کرنا آسان نہیں رہا ہوگا ۔ توقع تو یہی ہے کہ ایسے کوئی معاملات سندھ خاص کر کراچی میں قیام امن کے حوالے سے نہیں آئیں ، اس کیلئے دعا گو بھی ہیں ۔ لیکن نئے گورنر سندھ کی تقرری سے سندھ میں پاکستان مسلم لیگ ن کے نظریاتی کارکنان کو شدید دھچکا ضرورپہنچا ہے اور سیاسی مایوسی کا شکار ہوئے ہیں۔گو کہ نئے گورنر سندھ کیلئے پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکنان اور عہدے داران سے زیادہ شریف فیملی کی قربت اہمیت رکھتی ہے۔ اسی لئے میاں نواز شریف کی جوہر شناس نگاہوں نے ماضی میں جس طرح کے گورنر تعینات کئے ہیں ، اس سے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ کراچی جیسے گنجلگ متشدد و عدم برداشت کے سیاسی جنگل میں ، سیاست میں کم تجربہ رکھنے والے گورنر اپنی صلاحتیوں کا مظاہرہ کس طرح کرسکیں گے۔
گو کہ گورنر کا کردار پاکستان کے موجودہ جمہوری نظام میں واجبی سا ہوتا ہے ، لیکن ماضی میں سندھ کے سابق گورنر کی ذاتی دلچسپی اور فعال کردار نے ایم کیو ایم کیلئے کافی آسانیاں پیدا کیں اور سابق گورنر نے اپنے آئینی عہدے کا بھرپور فائدہ اٹھا کر گورنر شپ کی اہمیت کو ثابت کیا اور برسوں برس گورنر رہنے والے ڈاکٹر عشرت العباد کی رخصتی پر کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں و عوام نے خوشی کا اظہار کرکے ثابت کیا کیونکہ انھوں نے اپنے ذاتی شخصیت سے اپنی جماعت کو فائدہ پہنچایا تھا۔
Dr. Ishrat ul Ebad
نئے گورنر نے تعیناتی سے قبل ہی بتادیا ہے کہ وہ “مہاجر” ہیں۔جو انبالہ سے ہجرت کرکے پنجاب آگئے تھے تاہم والد کی برطرفی کے بعد کراچی منتقل ہوگئے ، اور ان کا پورا گھرانہ کراچی میں ہی رہتا ہے۔ ایم کیو ایم کو اس بات پر کم ازکم اطمینانت کا اظہار کرنا چاہیے کہ گورنر شپ کا عہدہ ایک اردو بولنے والے کو ہی ملا ہے۔ کچھ بھی ہو ، مہاجر تو ہیں نا ۔ جبکہ وہ خود تسلیم کررہے ہیں ،لہذا کراچی و حیدر آباد والوں کو پنجاب کے اردو اسپکنگ مہاجر کے گورنر بننے پر مبارکباد دینا تو بنتا ہی ہے۔ایم کیو ایم کو جس طرح سافٹ سائیڈ پرویز مشرف سے ملی تھی ، انھیں خاطر جمع رکھنی چاہیے کہ ایک مہاجر گورنر ان کیلئے پریشانی کا سبب نہیں بنے گا یہ سیاسی پنڈتوں کی پیش گوہی ہے۔
امید تو یہی ہے کہ نئے گورنر زبیر عمرسندھ کے گورنر کے عہدے تک سیاست میں اتنا تجربہ ضرور حاصل کرلیں گے ، جو کسی دوسرے صوبے میں انھیں 30سال بعد حاصل ہوتا ۔ کراچی چونکہ معاشی حب ہے ، اور مستقبل میں کئی ایسے ادارے نجکاری کے حوالے سے فروخت کرنے ہیں ، اسلئے گورنر شپ کے اہم عہدے سے، اعتراض کرنے والوں کے “تحفظات”دور کرنے میں کچھ کامیابی حاصل کرلیں گے ۔ سندھ کے دیہی علاقوں میں پی پی پی کی حکومت ہے اور شہری علاقوں میں بہادر شاہ ظفر کی طرح براجمان ایم کیو ایم اقتدار میں ہیں ۔ اب اگر انھیں پرویز مشرف کی طرح73ارب روپے جیسے پیکچ مل جائیں تو ٹھیک ، ورنہ اختیارات کا رونا تو 2018تک چلتا ہی رہے گا ۔ وزیر اعلی کارڈ کھیلنے کیلئے یہ بڑا پاور گیم ہے کہ جب تک سندھ کا وزیر اعلی شہری آبادی والا ( یعنی ایم کیو ایم) والا نہیں ہوگا ، سندھ کے شہروں کی صورتحال میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔
ایم کیو ایم کے لئے عام انتخابات کیلئے یہ ایک اہم نعرہ ہے کہ اگر حقوق اور شہری آبادیوں کو وڈیروں سے نجات دلانی ہے تو سندھ میں مہاجر وزیر اعلی کو لانا ہوگا ۔ اب ظاہر ہے کہ یہ اتنا بڑا انتخابی سلوگن ہے ، جو ایم کیو ایم کیلئے عام انتخابات میں تُرپ کا پتہ ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا ، اس لئے وہ بلدیات میں بھی جنوبی اور ضلع ملیر کو دوسرے اضلاع کے مقابلے میں زیادہ مراعات دے رہے ہیں ۔ ان کے لئے کراچی و حیدرآباد کے دیگر اضلاع کی انتخابی اہمیت نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ ابھی تک ضلعی ڈھانچہ تک فعال نہیں کرسکے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی شہری سیاست میں واپسی کا انحصار صرف اور صرف میاں نواز شریف کی جانب سے ترجیحات کی تبدیلی پر منحصر ہے ۔ کراچی کی مضافاتی آبادیاں ، کراچی میں امن کے حوالے سے میاں نواز شریف پر تعریف کے ڈونگرے برساتی ہیں ، اگر میاں نواز شریف اپنے ٹکٹ ہولڈرز کو وزیر اعظم ہاوس اسلام آباد میں کئے جانے والے اس عہد کا ہی ایفا کرلیں کہ جس طرح ایم پی اے ، ایم این اے ، سینیٹرز کو وفاق کی جانب سے فنڈز ملیں گے ، اسی طرح پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ ہولڈر جو بھلے ناکام ہوئے، انھیں بھی خصوصی فنڈز دیئے جائیں گے۔پاکستان مسلم لیگ ن کا سندھ میں تنظیمی ڈھانچہ کمزور ہے لیکن عوام ان سے کافی توقعات رکھتی ہیں ، اگر انھیں خصوصی فنڈز فراہم کرتے ہیں تو آئندہ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ ہولڈرز کے حوصلے بلند ہونگے ۔کیونکہ ماضی میں وفاق میں حکمران جماعت ہونے کے باوجود سندھ میں پاکستان مسلم لیگ ن نے کوئی ایسے ترقیاتی کام نہیں کئے ، جس کے بل بوتے پر ان کے رہنما عوام کے سامنے سرخرو ہوسکیں ، لیپ ٹاپ اسکیم ،صحت کارڈ اسکیم ، بے نظیر کارڈ اسکیم جیسے کئی عوامی چھوٹے چھوٹے منصوبوں سے بھی پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکنان محروم رہے ہیں۔ان کے پاس عوام کے جانب پرانے وعدے کو نیا لبادہ پہنا کر جانے کا بھی بہانہ نہیں ہے ، رہی سہی کسر بلدیاتی نظام کی سقم نے پوری کردی ہے۔
اگر سندھ کے نئے گورنر زبیر عمر کا ایجنڈا صرف عہدہ سنبھالنا ہے تو آغا سراج درانی نے دو مہینے قائم مقام گورنر کے عہدے پر رہ کر کوئی نئے جھنڈے نہیں گاڑے۔ اگر کراچی سمیت سندھ کے تمام شہروں میں بلا امتیاز خدمت کے ساتھ امن کے اس عارضی وقفے کو مستقل کرنا ہے تو گورنر سندھ زبیر عمر کو سب سے پاکستان مسلم لیگ ن سندھ میں دھڑے بازیوں کو ختم کرنا ہوگا ۔پاکستان مسلم لیگ ن میں باہمی اختلافات اس قدر زیادہ ہیں کہ وہ اپنے قائد میاں نواز شریف کی سالگرہ تک یکجہتی سے نہیں مناتے ۔ریلیوں میں گروپ بندی کی وجہ سے شرکت نہیں کرتے ، بلدیاتی نظام میں چیئرمینز اور وائس چیئرمینز کے درمیان اختلافات اس قدر نمایاں ہیں کہ صوبائی قیادت سے لیکر وارڈ کی سطح پر پاکستان مسلم لیگ ن میں صرف اختلاف ،گروپ بندی اور دھڑے بازی ہی نظر آتی ہے۔نئے گورنر پاکستان مسلم لیگ ن کیساتھ ساتھ کراچی سمیت دیگر مسائل سے کس طرح نبر آزما ہونگے یہ ایک دلچسپ صورتحال ہوگی۔یا تو ایک فعال گورنر کراچی سمیت سندھ کی محرومیوں کو دور کر پائے گا یا پھر قائداعظم کے مزار پر پھولوں کی چادر ہی چڑھاتے نظر آئیں گے۔