یروشلم (اصل میڈیا ڈیسک) اسرائیلی باشندے آئندہ کچھ برسوں میں یروشلم اور تل ابیب کے مابین سفر کے لیے ایسی شاہراہوں سے سفر کرنے کے قابل ہو جائیں گے، جو ویسٹ بینک میں واقع مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو کاٹ کر بنائی جائیں گی۔
اسرائیلی حکام کا منصوبہ ہے کہ آئندہ کچھ برسوں میں فلسطینی مقبوضہ علاقوں کو کاٹ کر ایسے انڈر پاسز اور اوورہیڈ بریجز بنائے جائیں گے، جن کی مدد سے یروشلم اور تل ابیب کے مابین سفر میں آسانی ہو جائے گی۔ تاہم انسانی حقوق کے گروپوں نے ان نئی تعمیرات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان منصوبہ جات کے شروع ہونے سے نئی امریکی انتظامیہ بھی یہودی آباد کاری کو روکنے میں ناکام ہو سکتی ہے۔
اس نئے منصوبے پر تحقیق کرنے والے اسرائیلی کارکن یہودہ شاؤل نے کہا ہے کہ دراصل یہ اسرائیل کی طرف سے مزید فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ٹینل کے لیے تعمیراتی کام جاری ہے اور جلد ہی یروشلم کے جنوب میں واقع معالی ادومیم نامی علاقے کے یہودی آباد کاروں کو مزید علاقوں میں پھیلنے کی آزادی مل جائے گی، اور یہ کام اتنے غیر محسوس طریقے سے ہو گا کہ اسرائیلی حکام کو ایک ٹریفک سگنل بھی نہیں ہٹانا پڑے گا۔
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
ان نئے منصوبوں کو پایہ تکیمل تک پہنچانے کی خاطر بڑی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کی کوشش ہے کہ کسی امن ڈیل کی صورت میں بھی وہ زیادہ تر مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو اپنی دسترس میں ہی رکھے۔
شاؤل کے مطابق ان نئے انفراسٹریکچر منصوبہ جات کی صورت میں یہودی آباد کاری کے لیے ویسٹ بینک میں پچاس ہزار جبکہ مشرقی یروشلم میں چھ ہزار نئے مکانات کی تعمیر ممکن ہو جائے گی۔
ان نئی شاہراہوں پر فلسطینی بھی سفر کر سکیں گے تاہم ان کی نقل و حرکت محدود ہو گی کیونکہ اسرائیل کے زیر انتظام مشرقی یروشلم میں داخل ہونے کے لیے انہیں خصوصی پرمٹ کی ضرورت ہو گی۔ انہوں نے کئی ماہ کی تحقیق کے بعد ان اعدادوشمار کو میڈیا کے سامنے پیش کیا ہے۔
اسرائیل نے سن 1967 کی جنگ کے بعد مشرقی یروشلم اور ویسٹ بینک پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب سے اب تک اسرائیلی حکام ان مقبوضہ علاقوں میں یہودی کاری جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان نئی بستیوں میں سات لاکھ یہودی آباد ہو چکے ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کا کہنا ہے کہ مستقبل کی آزاد ریاست میں ان دونوں علاقوں کو اپنا حصہ بنانا چاہتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں یہودی آباد کاری بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور امن عمل کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ یورپ سمیت متعدد عالمی طاقتیں ان مطالبات میں فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔