ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران کے حال ہی میں منتخب ہونے والے صدر ابراہیم رئیسی کو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے انتہائی مقرب صدور میں شمار کیا جاتا ہے۔ خامنہ ای کو ایران کے ولایت فقیہ کے نظام میں فیصلہ کن اتھارٹی کا درجہ حاصل ہے اور ان کے اشاروں کے بغیر کسی شخصیت کا کرسی صدارت پر فائز ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
خامنہ ای کی طرف سے نئے صدر کو پانچ اہم نوعیت کی ذمہ داریاں سونپی جائیں گی۔
ایران میں صدر کو سپریم لیڈر کے بعد دوسرا اہم ترین منصب حاصل ہوتا ہے۔ سپریم لیڈر کے جانشین کے تقرر کی سب سے بڑی ذمہ داری صدر پر عاید ہوتی ہے۔ سپریم لیڈر کے انتخاب کے لیے قائم کی جانے والی کمیٹی کی قیادت صدر کو سونپی جاتی ہے۔ صدر سپریم لیڈر کی وفات یا ذمہ داریوں کی انجام دہی میں ناکام رہنے کی صورت میں نئے رہبر اعلیٰ کا انتخاب کراتا ہے۔
ایران کا نیا رہبراعلیٰ کون ہوگا؟ اس سوال کے بارے میں کئی قیاس آرائیاں پائی جا رہی ہیں۔ مرشد اعلیٰ کے لیے متوقع طورپر موجودہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے صاحب زادے مجتبیٰ خامنہ کا نام لیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ نئے صدر ابراہیم رئیسی بھی خامنہ ای کے جانشین ہوسکتےہیں۔
مبصرین کا خیال ہے کہ سپریم لیڈر کی طرف سے نئے ایرانی صدر کو سونپی جانے والی ذمہ داریوں میں ملک کی طاقت سپاہ پاسداران انقلاب کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کی ذمہ داری بھی شامل ہے۔ اگرچہ ابراہیم رئیسی کا شمار ایران کے ان صدور میں ہوتا ہے جنہیں پہلے ہی پاسداران انقلاب کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ پاسداران انقلاب کے شعبہ اطلاعات ونشریات نے ابراہیم رئیسی کی حمایت میں مہم بھی چلائی تھی۔
سابقہ تین صدور کے ایرانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں بلکہ ایوان صدر اور پاسداران انقلاب کے درمیان تناؤ پایا جاتا رہا ہے۔
تیسری اہم ذمہ داری جو خامنہ ای کی طرف سے نئے صدر کو سونپی جائے گی وہ ملک کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہے۔ پچیس اپریل کو موجودہ وزیر خارجہ جواد ظریف کی ایک آڈیو لیک ہوئی جس میں انہیں پاسداران انقلاب پر سخت الفاظ میں تنقید کرتے سنا جا سکتا ہے۔ نئی ایرانی حکومت کو ایسی خارجہ پالیسی ترتیب دینا ہوگی جوسپریم لیڈر کی ہدایت کے مطابق ہو۔ دوسری الفاظ میں ابراہیم رئیسی کو ایسی خارجہ پالیسی بنانا ہوگی جس پر سپاہ پاسداران انقلاب بھی مطمئن ہو۔
نئے صدر اور ایرانی پارلیمنٹ کے درمیان تعلقات کو متوازن رکھنا بھی اہمیت کا حامل ہے۔ پچھلے کچھ عرصے کے دوران ایران کی مجلس شوریٰ اور صدر حسن روحانی کے درمیان بعض ریاستی معاملات میں کشیدگی رہی ہے۔ یہ کشیدگی فروری 2020ء میں ایران میں مجلس شوریٰ کے انتخابات میں شدت پسندوں کی جیت کے بعد اور بھی بڑھی۔
گذشتہ برس ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں ایران کی شورائے نگہبان نے بیشتر اصلاح پسند اور اعتدال پسند سیاست دانوں کےکاغذات نامزدگی مسترد کردیے تھے۔
اسی طرح حال ہی میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے اعتدال پسند رہ نماؤں کے کاغذات نامزدگی مسترد کرکے ابراہیم رئیسی کی جیت یقینی بنانے کی کوشش کی گئی۔
پانچویں ذمہ داری جو نئے ایرانی صدر کو سونپی جائے گی وہ آنے والے برسوں میں حکومت کے خلاف کسی قسم کے احتجاج کو روکنا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ابراہیم رئیسی کا شمار ایرانی رجیم کے مخالفین کو کچلنے والے سرکردہ لیڈروں میں ہوتا ہے۔ وہ اس چار رکنی موت کمیٹی کے رکن رہے ہیں جس پر ہزاروں سیاسی قیدیوں کو فنا کے گھاٹ اتارنے کا الزام عاید کیا جاتا ہےْ
رئیسی پرالزام ہے کہ اس نے سنہ 1988ء کے موسم گرما میں ہزاروں قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
ایرانی رجیم کے ریاستی جبر کے باعث سنہ 2018ء اور 2019ء کی طرح اب بھی کسی بھی وقت ملک گیر احتجاج کا خدشہ موجود ہے۔