اسلام آباد (جیوڈیسک) چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ نیو اسلام آباد ایئر پورٹ جلد مکمل ہونا چاہیے، پہلے ہی لاگت 35 ارب روپے سے بڑھ کر 90 ارب روپے آ رہی ہے، غریب قوم اتنے پیسے کہاں سے دے گی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے نیو اسلام آباد ائیر پورٹ کی تعمیر میں تاخیر اور مبینہ بے ضابطگیوں کے کیس کی سماعت کی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے بتایا کہ جنرل شاہد نیاز کی رپورٹ کارروائی کے لیے نیب کو بھجوائی گئی ہے لیکن چیئر مین نیب نہیں اس لیے نیب غیر فعال ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی معاملہ دبانا ہو تو نیب کو بھجوا دیں ، کیا یہ ایف آئی اے کو نہیں بھیجا جاسکتا تھا ؟ اگر حکومت ذمے داری سے نوٹس لیتی تو یہ معاملہ عدالت میں ہی نہ آتا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے کہا کہ حکومت اس معاملے کی مکمل تحقیقات مناسب فورم سے کرائے گی۔
عدالت نے تعمیراتی معاہدے کی 60 فیصد حصہ دار لے گن کمپنی کو تجویز کیا ہے کہ اگر وہ حقیقی جوائنٹ وینچر پر عمل کرے تو ٹھیک ہے، بعد میں مختلف کمپنیز کو شامل کرنا قانون کے مطابق درست نہیں۔ لے گن کمپنی نے عدالتی تجویز پر جواب داخل کرنے کے لیے یکم اگست تک مہلت طلب کر لی۔
عدالت نے سول ایویشن کی طرف سے نیو اسلام آباد ائیر پورٹ کی تعمیر کا ریکارڈ پیش نہ کرنے پر لا افسر عبیدالرحمان کی سرزنش کی جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اگر سول ایویشن خود ریکارڈ نہ لائی تو کسی سپاہی سے کہہ دیں گے۔ عبید عباسی نے اگلی سماعت پر ریکارڈ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔ کیس کی مزید سماعت یکم اگست کو کی جائے گی۔