تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا نیا اسلامی سال مبارک ہو۔”دین اسلام اللہ پاک کا پسندیدہ دین ہے ”اسلام کو ہر معاملے میں فوقیت اور برتری حاصل ہے ۔ دین اسلام کا مطلب ہی” امن و سلامتی ” ہے۔ جی یہ وہ دین اسلام ہے جو صاحب لولاک ، تاجدار مدینہ نبی غفور و رحیم ۖکے وسیلے سے نصیب ہوا! یہ بہت بڑی سعادت اور نصیب کی بات ہے!اللہ پاک کے پیارے نبی ۖ کا فرمان عالی شان ہے ( مفہوم مشکوة شریف ) میں اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کا نبی تھا جب حضرت آدم علیہ اسلام کا جسم مبارک مٹی اور پانی کے درمیان تھا! اسی لئے تو کہتے ہیں۔
مانا کہ حضور ۖ خدا نہیں ہے ۔ مگر آپ ۖ خدا سے جدا بھی نہیں ہے۔ کسی فلاسفر کا قول ہے کہ کامیاب زندگی گزارنے کے لئے دو اصول بنا لیئے جائیں ۔ ” جو مل گیا ہے اُس پر شکر اور جو نہ ملے اُس پر صبر ”آج جب دنیا کے نقشہ پر مسلمانوں پر نظر دوڑائیں تو ہر طرف بے بس لاچار اور گاجر مولی کی طرح کٹتے ، آتا کی چکی میں گندم کے دانوں کی پستے صرف اور صرف مسلمان ہی نظر آتے ہیں حالانکہ ” اللہ کا پسندیدہ دین اسلام ہے ”نئے سال کی آمد کے موقع پر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلامی سال کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی ۔ اس سلسلے میں مولانا محمد عظیم فیض آبادی المعہد العلمی الاسلامی، دیوبندلکھتے ہے کہ ! ابتدائے اسلام میں مسلمانوں میں عام طور پر تاریخ نویسی کا دستور نہیں تھا، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ آپ کی طرف سے حکومت کے مختلف علاقوں میں خطوط روانہ کیے جاتے ہیں؛ مگران خطوط پر تاریخ درج نہیں ہوتی؛حالانکہ تاریخ لکھنے کے بے شمار فوائد ہیں اور ریکارڈ کے محفوظ رکھنے میں کافی سہولت ہے، آپ نے خط کس دن تحریر کیا، کس دن روانہ کیا، کب پہونچا، کس دن حکم جاری ہوا، کس دن اور کس وقت سے اس پر عمل کا آغاز ہوا، ان سب باتوں کے جاننے اور سمجھنے کا دارومدار تاریخ لکھنے پر موقوف ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی اس مدلل بات کو بہت معقول سمجھا اور بہت سراہا، فورا مشورے کے لیے اکابر صحابہ ا کرام کی ایک میٹنگ بلائی اور حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کی یہ مفید رائے مجلسِ مشورہ میں اکابر صحابہ ا کرام کے سامنے رکھی، تمام صحابہ اکرام کوبھی حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی یہ بات بہت پسند آئی، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں مشورہ طلب کیا کہ اس کا آغاز کب سے ہو؛ تو اکابر صحابہ اکرام کی طرف سے اس سلسلے میں چار قسم کی رائے سامنے آئی، ایک جماعت نے مشورہ دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے سال سے اسلامی سال کا آغاز ہو۔ دوسری جماعت نے یہ رائے دی کہ نبوت کے سال سے اسلامی سال کا آغاز ہو اور تیسری جماعت نے یہ مشورہ دیا کہ ہجرت کے سال سے اسلامی سال کا آغاز ہو؛ جب کہ چوتھی جماعت کا یہ خیال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سالِ وفات سے اسلامی سال کی ابتداء کی جائے۔
یہ چار قسم کی رائیں اور مشورے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ذریعہ بلائی گئی، مجلسِ شوریٰ میں پیش کیے گئے، ان آراء میں سے کسی ایک کے انتخاب اور اس کو حتمی شکل دینے کے لیے صحابہ ا کرام کے درمیان بحث ومباحثہ ہوا، غور وخوض کے بعد فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ صادر فرمایاکہ ولادت یا نبوت کی تاریخ اور دنوں میں اختلاف کے باعث ولادت یا نبوت سے اسلامی سال کے آغاز کرنے میں اختلاف رونما ہوسکتا ہے اور وفاتِ نبوی سے اسلامی سال کی ابتداء کرنا اس لیے مناسب نہیں کہ وفاتِ نبوی کا سال اسلام اور مسلمانوں کے لیے رنج وغم اور صدمہ کا سال ہے؛ اس لیے ہجرت سے اسلامی سال کا آغاز کرنا زیادہ مناسب ہے؛ کیونکہ ہجرت نے حق وباطل کے درمیان واضح امتیاز پیدا کریا، اسی سال سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ ا کرام امن وسکون کے ساتھ بلاخوف وخطر پروردگار کی عبادت کرنے لگے، اسی سال مسجدِ نبوی کی بنیاد رکھی گئی جو دراصل دینِ اسلام کی نشرواشاعت کا مرکز تھی۔
اسلامی سال کے پہلے مہینے یعنی محرم الحرام کا دسواں روز یوم عاشورہ کہلاتا ہے اس روز کی قرآن و احادیث میں بہت فضیلت بیان کی گئی ہے اس روز کے متعلق مشہور ہے کہ دس محرم الحرام کو یوم عاشورہ اسلئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس دن اللہ ربّ العزت نے دس پیغمبروں(علیہ السلام) کو دس اعزازات عطاء فرمائے،اسی وجہ سے یہ دن یوم عاشورہ کہلاتا ہے۔ علماء کرام کے مطابق اسی روزحضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔ حضرت ادریس علیہ السلام کومقام رفیع پر اٹھایا گیا۔حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری۔ سیدناابراہیم علیہ السلام پیداہوئے اوراسی روزرب کائنات نے انکواپنادوست (خلیل) بنایا، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کوآگ نمرودسے بچایا گیا۔ حضرت دائودعلیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی،حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہی واپس ملی، حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری ختم ہوئی،حضرت موسیٰ علیہ السلام کودریائے نیل سے راستہ ملا، اور فرعون غرق کردیا گیا۔اسی روز سیدنایونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالے گئے،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوآسمان پراٹھا لیا گیا، محبوب خدا سرورانبیائ،احمدمجتبیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور تخلیق ہوا۔ اوراسی یوم عاشورہ کے دن امام عالیٰ مقام حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جام شہادت نوش کیا، اور اس طرح ظالم و مظلوم، حق و باطل کے درمیان اس عظیم معرکہ کو کربلا کے نام سے تاریخ نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محفوظ کر لیا۔
نئے سلامی سال کی ابتدا پر ہم کو پختہ عہد کرنا ہوگا کہ نبی کریم ۖ کے ساتھیوں صحابہ کرام کے نقشہ قدم پر چلتے ہوئے اگر کبھی کوئی مشکل مصیبت یا پرشانی آجائے تو شکوہ شکایت کرنے کی بجائے ہجرت کو ترجیح دین گئے، اگر اگر کبھی حق و باطل کی بات آجائے تونواسہ رسول ۖ جگر گوشہ بتول جناب امام حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح کلمہ حق کے لئے بڑی سے بڑی قربانی حتیٰ کہ جان کی قربانی سے بھی دریخ نہیں کریں گئے۔