تحریر : پروفیسر رفعت مظہر ہتھیلی پہ سَرسوںجمانا اسی کوکہتے ہیں، اُدھرہمارے کپتان صاحب نے گلگت بلتستان کی ”ٹھنڈی ٹھار”وادیوں میں ”نئے پاکستان سے پہلے نیا خیبرپختونخوا” بنانے کااعلان کیااور اِدھر ”گرماگرم” خیبرپختونخوا بن بھی گیا۔نئے پختونخوا کی پہلی جھلک ہم نے بلدیاتی انتخابات میںاُس وقت دیکھی جب تحریکِ انصاف کے وزیرباتدبیر علی امین گنڈاپوراپنے مسلح ساتھیوںسمیت ڈیرہ اسماعیل خاںکی یونین کونسل ”ہمت” کے ایک پولنگ سٹیشن میںگھس گئے ۔ڈیوٹی پرموجود SHO نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی مگر ایک ہی تھپڑکھا کر ”نُکرے” لگ رہے ۔جب علی امین گنڈاپور کے حکم پربیلٹ بکس گاڑی میںرکھے جارہے تھے توکسی ستم ظریف نے جمعیت علمائے اسلام کواطلاع دے دی۔مولاناحضرات نے مساجدمیں اعلان کروا دیا کہ فوراََ متعلقہ پولنگ سٹیشن تک پہنچاجائے۔ معروف کالم نگاربھائی رؤف طاہرکو لوگوںکے پولنگ سٹیشن تک پہنچنے اور ”کھڑاک” کرنے پرتو کوئی اعتراض نہیں
البتہ یہ اعتراض ضرورہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی روسے مساجد کے لاؤڈسپیکر صرف پانچ وقت کی اذان اورجمعے کے عربی خطبے کے لیے ہی استعمال کیے جاسکتے ہیںجبکہ لاؤڈسپیکرسیاسی استعمال میںلائے گئے۔ اُنہوںنے تویہ بھی کہاکہ اِس ”شَرانگیز”فعل پرخیبرپختونخوا کی حکومت ایکشن میںآسکتی ہے ۔ عرض ہے کہ حکومت ایکشن میں آئے گی کیسے ،وہ تواب بھی الیکشن ہی میں ”گوڈے گوڈے ”دھنسی ہوئی ہے اوربقول امیرِ جماعت اسلامی پشاور، اب بھی آراوز سے دھڑادھڑ نتائج تبدیل کروانے میںمصروف۔
شایداسی لیے خیبرپختونخوا کے صوبائی امیرِ جماعت اسلامی پروفیسر ابراہیم نے کہا ”پی ٹی آئی دھاندلی کی چیمپئن بن چکی ہے”خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیرِاطلاعات مشتاق غنی کوشکوہ ہے توفقط یہ کہ حلیف ہونے کے ناطے یہ تحریکِ انصاف اورجماعتِ اسلامی کااندرونی معاملہ تھاجسے ”پبلک”کرنے کی بجائے دونوںمِل کر”اندرکھاتے” طے کرلیتے ۔کپتان صاحب بھی یہی کہتے پائے گئے کہ دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
Jamaat e Islami
اُنہوںنے فرمایا”جماعت اسلامی کی جانب سے دھاندلی کے الزامات پرصدمہ پہنچا ،ہم فوج کی نگرانی میںدوبارہ بلدیاتی الیکشن کروانے کے لیے تیارہیں”۔ دوسری سیاسی جماعتیں مگرکہتی ہیںکہ ”فارمولا” ایک ہی ہوناچاہیے ۔اگر 2013ء کے انتخابات میںدھاندلی کے الزامات پروزیرِاعظم سے استعفیٰ مانگاجا سکتاہے توپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میںدھاندلی کے واضح ثبوتوںکے بعدوزیرِاعلیٰ پرویزخٹک سے استعفے کامطالبہ کیوںنہیں کیاجا سکتا؟۔ بھائی لیاقت بلوچ مگرکہتے ہیںکہ جماعت اسلامی نے 2013ء کے انتخابات کے بعد وزیرِاعظم سے استعفے کامطالبہ کیاتھا ،نہ اب وزیرِاعلیٰ سے کررہے ہیں۔ اُن کامطالبہ توصرف دھاندلی کی شفاف تحقیقات کروانے تک محدودہے۔ہماری جماعت اسلامی بھی ہمیشہ گھاٹے کاہی سوداکرتی ہے۔
اگر جماعت اسلامی کی بجائے جمعیت علمائے اسلام ،تحریکِ انصاف کی حلیف ہوتی تومولانا فضل الرحمٰن نے مزید دو ،تین ”وَڈی ،وَڈی” وزارتوںپر ہاتھ صاف کرکے چُپ ہورہنا تھاکیونکہ اُن کی کتابِ سیاست میں”نظریۂ ضرورت” کے تحت سب جائزہے۔ علی امین گنڈاپور تو ہجوم کواپنی طرف بڑھتادیکھ کر”پھُر” ہوگئے لیکن دوسری طرف اے این پی کے میاںافتخار حسین کوخیبرپختونخوا کی ”غیرسیاسی ” پولیس نے قتل کے ایک مقدمے میں”دَھر” لیا۔طُرفہ تماشہ یہ کہ میاں افتخار کو پولیس نے تین بجے سہ پہرگرفتارکیا جبکہ قتل کی FIR شام پانچ بجے کٹی۔ ایک محترم لکھاری نے اِس پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا”زیادہ واویلاکرنے کی بجائے انصاف کی طرف دیکھناچاہیے۔
مولانافضل الرحمٰن اورالطاف حسین نے بغضِ معاویہ میںیہ مطالبہ بھی کردیاکہ میاںافتخار حسین کوفی الفوررہا کیاجائے۔۔۔ قانون سب کے لیے ایک ہوناچاہیے ، سب کے ساتھ سلوک بھی ایک جیساہونا چاہیے ،قانون کی عدالت میںامیر اورغریب میں فرق دکھانے کی کیاضرورت ہے”۔ بالکل بجاکہ یہ توامیرالمومنین حضرت عمر کابھی فرمان ہے ”اگر کسی کی وجاہت کے خیال سے قانون کاپلڑااُس کے حق میںجھُک جائے تواللہ کی بادشاہت اورقیصروکسریٰ کی حکومت میںکیا فرق ہے”۔ سوال مگریہ کہ ایک طرف توحکومتی وزیرعلی امین گنڈاپور ، جس کی ”واردات”سب پہ عیاںلیکن وہ تین دنوںتک آزادگھومتے رہے
Mian Iftikhar Hussain
جبکہ دوسری طرف بے گناہ میاںافتخار حسین، جنہیں سلاخوںکے پیچھے پہنچانے کی اتنی جلدی ؟۔ میاںافتخار حسین تومقتول کے والدکی گواہی پررہاہو گئے لیکن شدیدترین عوامی ردِعمل کے بعدجب علی امین( جس کے خلاف دو مقدمات درج ہیں) کے گھر پولیس نے”واردات” کے تیسرے دِن چھاپامارا تووہ پچھلے دروازے سے پھِر ”پھُر” ہوگئے ۔شاید گنڈاپور صاحب کے ذہن میںیہ ہوکہ جوپولیس اُنہیں ”پروٹوکول”دیتی ہے اب اُسی کے ہاتھوں گرفتاری اُن کی توہین ہے ۔وزیرِاعلیٰ پرویزخٹک کی ”منتوںتَرلوں”اور کپتان صاحب کے حکم کے بعدعلی امین گرفتاری دینے پربادلِ نخواستہ تیارہو ہی گئے۔پیشی کے بعدعلی امین گنڈاپور عدالت سے ہتھکڑیاں پہنے دونوںہاتھ ہوامیں لہراتے یوںنکلے کہ جیسے وہ ”سلطان راہی”ہوں اورعدالت کوئی فلمی سٹوڈیو۔جس ”حرکت”پرسَر ندامت سے جھک جاناچاہیے تھا، اُسی پرفخر؟۔ کیاقوم کی رہنمائی کادعویٰ کرنے والوںکا چلن یہی ہوتاہے؟۔
KPK کے بلدیاتی انتخابات کے بارے میں کپتان صاحب اورپرویز خٹک ،دونوںنے یہ کہاکہ امن وامان الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی اوراگر الیکشن کمیشن مرحلہ وارانتخاب کروادیتا توبَدنظمی سے بچاجا سکتاتھا لیکن الیکشن کمیشن نے واضح تردیدکرتے ہوئے کہاکہ امن وامان الیکشن کمیشن نہیں، صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی اورالیکشن کمیشن نے تودومرتبہ صوبائی حکومت کومرحلہ وارانتخابات کی تجویزبھی دی تھی جومسترد کردی گئی۔ اب پتہ نہیںسچاکون اورجھوٹا کون البتہ ہماراحسنِ ظَن یہی ہے کہ اگر خاںصاحب کہتے ہیںتوپھر ”ٹھیک ہی کہتے ہوںگے”۔ ویسے بھی ایک بزرگ صحافی اپنے کالموںمیں باربار یہ لکھ چکے کہ ”کپتان جھوٹ نہیںبولتا”اور ہمیںلکھاری کے لکھے پہ ”اعتبار”۔سچّے اورجھوٹے کی بحث میںپڑے بغیرقوم سوال کرتی ہے کہ اِس خونی الیکشن کی وجہ سے جو 23 افرادجان سے گئے ، اُن کالہو کِس کے ہاتھ پہ تلاش کریں؟۔
اگر صوبائی حکومت ذمہ دارہے توخونِ ناحق کامقدمہ کپتان صاحب کی عدالت میںکہ وہ گزشتہ 2 سالوںسے اسی دھاندلی کوبنیاد بناکر حکمرانوںسے استعفے کامطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں۔2013ء میںتونگران حکومتوںکے تحت الیکشن ہوئے جن میںدھاندلی کا پتہ چلانے کے لیے تحقیقاتی کمیشن بن چکا لیکن 30 مئی کوتو تمام اختیارات کی مالک ایک منتخب حکومت تھی جس کی موجودگی میںانتخابات ہوئے اورنہ صرف یہ کہ دھاندلی کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے بلکہ قتلِ عام بھی ہوا ۔کیااب بھی خیبرپختونخوا حکومت کے مستعفی نہ ہونے کاکوئی جوازہے ؟ اورکیا تحریکِ انصاف کاانصاف یہی کہتاہے کہ اگر دھاندلی ہوئی ہے تودوبارہ الیکشن کروالیتے ہیں؟۔