نیا لاہور ایک خواب یا خام خیالی

Lahore

Lahore

تحریر : حسیب اعجاز عاشر

تقریباً پانچ سو تاریخی عمارتوں کو اپنے دامن میں لئے ہزاروں سال سے صوبہ پنجاب کا دارلحکومت لاہور دنیا کا پندرہواں بڑا شہر جانا جاتا ہے ۔ جہاں کی تاریخ بھی عجب رہی کبھی ہندو راج آیا، کبھی مسلمان حکمران بنے،کبھی سکھ برسر اقتدار آئے اور کبھی انگریز راج مسلط ہوگیا تو یوں شہرلاہور کو ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے، یہی وجہ ہے پاکستان میں جب بھی سیاحوں نے رُخ کیا تو ایسا ممکن ہی نہیں کہ وہ لاہور کو دیکھے بغیر واپس لوٹ جائیں۔یہی وجہ ہے وقت کے ہر حکمران نے لاہور کی خوبصورتی پر خصوصی توجہ دی اور اِس شہر کو مزید سے مزید پرکشش بنانے کیلئے تمام تر وسائل کو بروئے کار لایا جاتا رہا جس کی سب سے بڑی وجہ اِس کی تاریخی حیثیت ہونے کے علاوہ صوبہ پنجاب کا دارلخلافہ ہونا بھی ہے

مگرسیاسی رشہ کشی میں الزام تراشیوں کا بازار بھی گرم رہا کہ لاہورپر غیرضروری توجہ دے رہے ہیں جبکہ دیگر اضلاع کونظرانداز کیا جارہاہے بلکہ دیگر اضلاع کا فنڈ بھی اِس شہر پر خرچ کیا جارہا ہے اور یہ الزام لگانے والے آج کے حکمران ہیں جن کا موقف اپوزیشن میں کچھ اور تھااور آج برسراقتدار آنے بعد عمل کچھ اور ۔ سی پیک کا حصہ ہونے کے باوجود اورنج لائن پر فقط اِس لئے تنقید کی گئی کہ صرف لاہور میں ہی کیوں؟ باقی اضلاع کا کیا قصور؟ یہ بھی خاطر میں نہ رکھا گیا کہ چائنا سے ہماری دوستی کسی نوعیت کی ہے ؟ اور یوں موجودہ حکمرانوں نے بھی لاہور سے ہی منسلک پچاس ہزار ارب کی مالیت کے منصوبے”راوی ریور اربن ڈویلپمنٹ پروجیکٹ” کاافتتاح کردیا ہے ۔کیا حکومت وقت کے پاس اِس بات کا جواب ہے کہ اِس منصوبہ کے آغاز سے احساس محرومی کا شکار دیگر اضلاع کے احساسات کیا ہونگے؟اُن کے جذبات کیا ہونگے؟یہ وہ نقطہ ہے جس پر سیاست چمکا کر اخلاقی روایات کو قدموں تلے روندتے ہوئے اقتدار حاصل کیا گیا ہے ۔

راقم الحروف کا ہرگز یہ نقطہ نہیں کہ لاہور پر کیوں توجہ دی جارہی ہے؟لاہور پنجاب کے لئے اتنا ہی اہم ہے جتنا پشاور کے پی کے کیلئے، کراچی سندھ کے لئے او رکوئٹہ بلوچستان کیلئے اوریہ حقیقت ہے کہ کسی بھی صوبہ کا دارلخلافہ خصوصی توجہ کا طلبگار ہوتا ہے ۔ جس طرح دیگر تمام صوبے اپنے اپنے دارلحکومت کو زیادہ اہمیت دے رہے ہیں لاہور بھی حق رکھتا ہے اور یہ بات کل کی اپوزیشن اور آج کے حکمرانوں کو باخوبی سمجھ آجانی چاہیے۔اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع راوی ریور اربن ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کے تحت بننے والے نئے لاہور کی جانب ۔حکومت کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق نیا لاہور اسلام آباد کے بعد پاکستان کا دوسرا منصوبہ بندی کے تحت بسایا جانے والا شہرہوگا ۔ اس میگا منصوبے کے تحت دریائے راوی کی تجدیدنو کی جا رہی ہے ، 46 کلومیٹرپر محیط جھیل بنے گی جس سے ای سی او سسٹم بہتر ہوگا، واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس لگے گیں، اربن فارسٹ اورمیڈیکل سٹی، فنانشل سٹی، سپورٹس سٹی،نالج سٹی اورانوویشن سٹی بھی تعمیر ہونگے علاوہ ازیںساٹھ لاکھ پودے لگا کر گرین زون بنائے جائیں گے جبکہ آٹھارہ لاکھ رہائشی یونٹس بنیں گے ۔

پاکستان کے لئے گیم چینجر کے طور پر پیش کیا گیا یہ منصوبہ ایک خواب ہے جس کو تعبیر ملنا ممکن ہے یاصرف خام خیالی جو سوشل میڈیا پر تہلکہ مچانے کیلئے موثر حربہ ؟سب سے پہلا نقطہ یہ ہے کہ یہ کوئی نیا اچھوتا منصوبہ نہیں بلکہ پچھلے ادوار میں بھی حکمرانوں کو اِس پر بریفنگ دی جاتی رہی ہے مگر اِس پرعملدرآمدمیںکئی پیچیدگیوں کے باعث عملی پیش رفت نہ ہو پائی تھی ۔اگر آج کی بات کریں تو سب سے پہلا مسئلہ سرمایہ کاری کا ہے؟کیونکہ مقامی بلڈرز اور کنٹریکٹرز کی حکومت اور نیب کی ملی بھگت سے اتنی حوصلہ شکنی کی گئی ہے کہ وہ موجودہ سیٹ آپ میں اِس منصوبہ میں دلچسپی کیسے دیکھائیں گے؟راوی ریوراربن ڈویلپمنٹ منصوبے کو کامیاب بنانے کیلئے گوادر سمیت پاکستان بھر میں پہلے سے جاری رہائشی اورکمرشل اسکیموں کا مستقبل کیا ہوگا؟جب پاکستانی سرمایہ کار ہی اپنے آپ کو غیرمحفوظ تصور کر رہے ہیں تو بیرونِ ملک سے سرمایہ کاری کو کیسے راغب کیا جائے گا؟ نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم کی مثال سامنے ہے کہ دوسال میں کس نے کتنی دلچسپی لی ؟اِس منصوبہ پر سب سے پرکشش پہلو تعمیرانی زون کے درمیان پانی کی گزرگاہیں ہیں ۔

جلو سے ٹھوکر تک کنال کو پچھلے دوسال میں صاف کرنا تو ناممکن ہوچکا ہے تو نئی چھالیس کلومیٹر کو تعمیرکرنا کیسے ممکن ہوگا؟دوسری بات نئی جھیل کیلئے پانی ہے کہاں؟ہماری ناقص خارجہ پالیسی کے تحت بھارت کی آبی جارحیت کے باعث راوی کو خشک کرنے اور اِس میں پانی کی سطح کو بلند کرنا ہماری دسترس میں نہیں رہا ایک عرصہ دراز تک راوی تو خشک بنجر زمین کا منظر پیش کرتی رہی اگر حالیہ بارشوں کے سلسلہ میں غیر معمولی تیز ی نہ آتی تو راوی کی صورتحال آج بھی کچھ اور ہوتی۔وزیراعظم کا کہنا ہے کہ سیوریج واٹر کو ٹریٹمنٹ کے ذریعے صاف پانی راوی میں پھینکا جائے گا جس سے راوی کی سطح بلند ہوگی اور یہ منطق بھی ناقابل فہم ہے جب پہلے ہی تقریباً دوہزار کیوسک سیوریج کا گندہ پانی راوی میں ہی پھینکا جارہا ہے تو پھرراوی میں پانی کی سطح کس آبی ذخائر سے اُس حد تک بلند ہو گی جسکو حکومت کی جانب سے جاری خیالی گرافیکل ویڈیو میں دیکھایا جارہا ہے ؟کہا جارہا ہے کہ اگر یہ منصوبہ نہ بنا تو لاہور کا حال کراچی جیسے ہوسکتا ہے، راقم الحروف پچھلے کئی ماہ سے اپنی تحریروں میں نشاندہی کررہا ہے کہ لاہور کے ندی نالوں نہروں اور سیوریج کی پچھلے دو سالوں سے مناسب صفائی نہیں ہوئی اور لاہور آہستہ آہستہ کراچی کی صورتحال کی جانب ہی بڑھ رہا ہے اُن گھروں میں بھی اب بارش کا سیلابی پانی آنے لگا ہے جہاں پچھلی چار پانچ دہائیوں میں کبھی پانی نہیں آیا ۔

دوسری جانب اِس منصوبہ پرنجی سرمایہ کاری اپنی جگہ حکومتی سطح پر بھی انفراسٹیکچر کی تعمیر یر ایک کثیررقم درکار ہے۔اگر غائبی مدد سے نیا سٹرکوں کا نظام بنا بھی لیا جائے تو اُسے موٹرویز کیساتھ سے ہی منسلک کرنا ہوگا۔اِس لئے بہتر تھا کہ دبئی کے مارینا سٹی یا ڈائون ٹائون سٹی جس میں ندی نالوں یا نہروں کا پانی استعمال نہیں کیا گیا بلکہ سمندر کے پانی کو استعمال کیا گیا ہے، کی نقل کرنے کے بجائے پہلے سے جاری منصوبہ بندی پر تھوڑی غوروفکر کر لی جاتی ۔جیسے موٹرویز کی تعمیر کا مقصد صرف سٹرکوں کا جال نہیں تھا بلکہ اِس کے دونوں اطراف کمرشل اور رہائشی زون کی تعمیر بھی تھا اب چونکہ پاکستان میں امن بھی بحال ہوچکا ہے اور حکومت اپنے آپ کو اتنا مستحکم بھی سمجھ رہی ہے کہ میگا منصوبوں کی جانب بڑھ سکتی ہے تو بہتر ہوتاکہ اپنی موٹر ویز کو دبئی کی شیخ زید روڈ یا امارات روڈکی طرز پر ڈھال دیا جاتا ۔عالمی معیار کی ہائی ویز تو پہلے سے ہی موجود ہیں بس سروس روڈ زکے اضافے سے دونوں اطراف رہائشی،کمرشل زون کی منصوبہ بندی آسان ٹارگٹ تھا ۔سیکورٹی کے اعتبار سے بھی یہاں سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم کرنا قدرے آسان ہے جبکہ لاہور جیسے گنجان آباد شہر میں قدرے مشکل ٹاسک ہوسکتا ہے ۔

جبکہ لاہور شہر سے منسلک اِس منصوبے کے ہونے سے ایسا سیکورٹی رسک بھی پیدا ہوسکتا ہے جس طرح کے چیلنجز کا گوادر میں منصوبوں کے آغاز پر سامنا کرنا پڑا اور تاحال دشمن عناصر منصوبہ کو سبوتاژ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ قصہ مختصر راوی ریور اربن ڈویلپمنٹ پروجیکٹ ایسے تیسے شجرکاری یا پھر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس سے آگے بڑھتا دیکھائی نہیں دے رہا اور احساس محرومی کا شکار چھوٹے اضلاع کیلئے تنقید کا سبب الگ سے کہ وزیراعظم کس طرح جمع شدہ ساری رقم کو نئے لاہور پر خرچ کرنے کا اعلان کر سکتے ہیں ؟ لیکن اگر اِس طرز کا منصوبہ موٹرویز پر شروع کیا جائے توایک طرف لاگت بھی کم ہوگی اور دوسری طرف نیو لاہورسٹی کے پائلٹ منصوبہ کے افتتاح پر ہی نیو شیخوپورہ، نیو فیصل آباد،نیاسیالکوٹ، نیو اسلام آباد، نیو ملتان، نیو پشاور،نیوکراچی سمیت دیگر نئے شہروں کی نوید بھی سنائی جاسکتی ہے جس سے کسی سیاسی بہروپیوں کو علاقائی تعصب کو ہوادینے کا بھی موقع نہیں ملے گا اور یہ منصوبے ”راوی ریور اربن ڈویلپمنٹ پروجیکٹ”کی طرح خام خیالی نہیں ہونگے بلکہ وہ خواب ہونگے جن کی تعبیر ممکن ہے۔

Haseeb Ejaz Aashir

Haseeb Ejaz Aashir

تحریر : حسیب اعجاز عاشر

haseeb.ejaz.aashir@gmail.com
WhatsApp: 0334-4076757