تحریر : علی عبداللہ لاس ویگاس میں ہونے والے ایک کنسرٹ میں نہتی عوام پر فائرنگ کرکے 58 لوگوں کو ہلاک اور 515 لوگوں کو زخمی کرنے والے 64 سالہ سٹیفن پیڈک کو اب تک انٹرنیشنل میڈیادہشت گرد کی بجائے شوٹر کہہ کر پکار رہا ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ وہ شخص چونکہ مسلمان نہیں تھا اور نہ ہی کسی اسلامی دہشت گرد ملک سے تعلق رکھتا تھا اسے لیے بین الاقوامی میڈیا نے اسے ٹیرارسٹ پکارنا مناسب نہیں سمجھا۔ بے گناہ اور معصوم عوام کا قتل باعث افسوس اور باعث غم ہے چاہے ان کا تعلق کسی اسلامی ملک سے ہویا کسی غیر اسلامی ملک سے ۔ فائرنگ کر کے بے گناہ شہریوں کو مارنا ہر معاشرے میں ایک قبیح اور ناقابل برداشت عمل جانا جاتا ہے ۔ لیکن مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر قاتل کو مختلف نام دینا زیادتی ہے ۔ ایک قاتل اسلام میں بھی قاتل ہی ہے اور باقی تمام مذاہب میں بھی قاتل ۔ لیکن مسلمان قاتل دہشت گرد اور غیر مسلم قاتل شوٹر یہ کہاں کا انصاف اور عقلمندی ہے ؟
ایک جدید تعلیم یافتہ معاشرہ اور سپر پاور ہونے کے ناطے امریکہ میں نہتی عوام پر فائرنگ کے واقعات میں تیزی اس ملک کی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ماتھے پر سیاہ دھبہ ہے اور یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ پوری دنیا کو امن کے نام پر بے امن کرنے والے اس ملک میں بد امنی عروج پر ہے ۔ ابتدائی اطلاعات میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ داعش نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے لیکن ایف بی آئی کو ابھی تک ایسا کوئی ثبوت نہیں مل سکا ۔ جبکہ فائرنگ کے بعد قاتل مردہ حالت میں اپنے کمرے میں موجود پایا گیا ہے ۔ پولیس کو ایک خاتون کی بھی تلاش ہے جس پر شک ہے کہ وہ اس حملہ آور کی سہولت کار تھی۔اس سلسلے میں ٹرمپ کو سوشل میڈیا پر خاصی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ فائرنگ کے اس واقعے کے تقریبا پانچ گھنتے بعد صدر ٹرمپ نے ٹویٹر پر معمولی سا ٹویٹ کیا ۔ جبکہ ٹرمپ کو قاتل کو دہشت گرد نہ کہنے پر بھی خاصی تنقید کا سامنا ہے جو کہ صدر کے دوہرے معیار کو ظاہر کرتا ہے ۔
رواں سال اب تک واچ ڈاگ گروپ کے مطابق پورے امریکہ میں عوام پر 273 فائرنگ کے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں جس میں 11621 ہلاکتیں ہوئیں جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد 23433 ہے ۔ 1949 کے بعد لاس ویگاس میں ہونے والا یہ حملہ اب تک کا بدترین عوام پر فائرنگ کا واقعہ ہے ۔ 2016 میں پلس نائٹ کلب میں 49 لوگوں کو فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا ۔ قاتل کو پولیس نے موقع پر ہلاک کر دیا تھا جبکہ اس کی ذمہ داری بھی داعش نے ہی قبول کی تھی ۔ 2013 میں سابق امریکی فوجی نے واشنگٹن نیوی ہیڈکوارٹر میں فائرنگ کر کے 12 لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا اور اسی طرح 2012 میں ایک امریکی طالب علم ایڈم لانزا نے سینڈی ہک ایلیمنٹری سکول میں فائرنگ کر کے 26 لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا ۔ 2009 میں ملٹری بیس پر فائرنگ واقعے میں 13 لوگ ہلاک اور 42 زخمی ہوئے تھے ۔ جبکہ 2007 میں ورجینیا ٹیک یونیورسٹی میں جنوبی کورین طالب علم نے فائرنگ کر کے 32 لوگوں کو ہلاک کر کے خود کشی کر لی تھی ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایک بہترین کہلائے جانے والے معاشرے میں ایسے جنونی واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں؟ تحقیقات کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ معاشرتی اور خاندانی مسائل ہیں جس بنا پہ لوگ مشتعل ہو کر ایسا قدم اٹھاتے ہیں اور اس کی بھی ایک بڑی وجہ ملک میں اسلحے کا عام ہونا ہے ۔ امریکہ کی بعض ریاستوں میں اسلحے کی کھلے عام فروخت ہوتی ہے اور لوگ ایک وقت میں کئی بندوقیں خرید سکتے ہیں جس کے بارے کوئی سخت قانون موجود نہیں ہے ۔ ماہرین نفسیات کے مطابق نہتی عوام پر فائرنگ کی وجوہات میں ذہنی امراض کا بھی اہم کردار ہے ۔
وجوہات چاہے جو بھی ہوں، لیکن اس بار قاتل مسلمان نہیں تھا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد کہیں پھر سے امریکہ کسی نئی چال کا آغاز کرنے جا رہا ہے یا پھر ٹرمپ انتظامیہ اپنے ملک میں امن مہیا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے ۔ یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ امریکہ کے اندرونی حالات کس قدر کشمکش کا شکار ہیںکہ امریکی عوام میں سے ہی لوگ سٹیفن پیڈک بن کر ابھر رہے ہیں۔