اسرائیل (اصل میڈیا ڈیسک) اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے عندیہ دیا ہے کہ ان کا ملک کسی نئے بین الاقوامی ایرانی جوہری معاہدے کا پابند نہیں ہوگا۔ اس طرح انہوں نےایران کے ساتھ تصادم کے بڑھتے امکانات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
ایران کے ساتھ اُس کے متنازعہ ایٹمی معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات کا سلسلہ 29 نومبر کو شروع ہونے جا رہا ہے۔ اس تناظر میں اسرائیلی وزیر اعظم نے ایران کیساتھ اپنے دیرینہ کشیدہ تعلقات اور تصادم کی صورتحال میں اضافے کے امکانات کی نشاندہی کی ہے۔ نفتالی بینیٹ نے اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ اگر عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کا کوئی نیا ایٹمی معاہدہ طے پاتا ہے تو تل ابیب حکومت اُس کی پابند نہیں ہوگی۔
ایران جوہری ڈیل سے نکلنے کا اعلان سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 ء میں کیا تھا۔ امریکا اور اسرائیل کا مشترکہ نقطہ نظر یہ تھا کہ یہ ڈیل ایران کی ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت کے حامل منصوبوں کو روکنے کے لیے ناکافی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ جنہوں نے رواں سال جون میں عہدہ سنبھالا ہے، نے ایک تقریر میں کہا ہے کہ ” ایران اپنے جوہری پروگرام کے اعلیٰ درجے تک پہنچ چُکا ہے۔‘‘
نفتالی بینیٹ کی حکومت گرچہ پہلے یہ کہہ چُکی ہے کہ وہ ایران کے ساتھ ایک نئی جوہری ڈیل کا کھلے دل سے ساتھ دے گی بشطریکہ نیا معاہدہ ایران پر مزید سخت پابندیاں عائد کرے تاہم وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے اسرائیلی خود مختاری پر دوبارہ زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے ‘دیرینہ دشمن‘ کے خلاف کارروائی کرے گا۔
تل ابیب کےنزدیکی علاقے میں قائم ‘رائش من یونیورسٹی‘ کے ایک ٹیلی وژن پر نشر ہونے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نفتالی بینیٹ کا کہنا تھا،” ہم اس وقت بہت پیچیدہ حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایسے میں عین ممکن ہے کہ ہمارے بہتریں دوستوں کے ساتھ کوئی تنازعہ کھڑا ہو جائے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،” کسی بھی صورت میں اور چاہے کسی بھی معاہدے کی واپسی ہو، اسرائیل یقیناً اس معاہدے کا فریق نہیں ہوگا نہ ہی اسرائیل اس ڈیل کا پابند ہوگا۔‘‘
نفتالی بینیٹ نے ساتھ ہی قدرے مایوس لہجے میں کہا کہ اسرائیل کی ” ایرانی گوریلا اتحادیوں‘ کے ساتھ جھڑپیں چھوٹے پیمانے پر ہوتی رہی ہیں ۔‘‘ نفتالی کے بقول،” ایران نے اسرائیلی ریاست کو گھیر رکھا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا،” ایرانی خفیہ قُدس فورس کی طرف سے بھیجے گئے دہشت گردوں کا تعاقب کافی نہیں ہے بلکہ بھیجنے والے تک پہنچنا ہوگا۔‘‘
اسرائیلی وزیر اعظم کا ماننا ہے کہ سائبر ٹکنالوجی کے ضمن میں بہت ہی واضح جنگ کے خطرات کو اب تک روکے رکھا گیا ہے تاہم اسرائیل کے لیے نفتالی بینیٹ جن امور کو فائدہ مند سمجھتے ہیں وہ رنگ لا سکتے ہیں، یعنی اسرائیلی جمہوریت اور بین الاقوامی حمایت۔ انہوں نےکہا، ” ایران اُس سے کہیں زیادہ کمزور ہے جتنا اُسے عام طور سے سمجھا جاتا ہے۔‘‘