پاکستان اسلام کے نام سے معرض وجود میں آیا تھا اور اس کی بنیادوں میں نہ صرف مسلمان مردوں بلکہ ان عزت مآب خواتین کا لہو بھی شامل ہے جنہیں پاک سر زمین پر قدم رکھنے سے قبل ہی شہید کر دیا گیا تھا ۔ سینکڑوں مسلمان عورتوں کی بھارتی سکھوں نے بے حرمتی کی اور کئی واقعات دل ہلا دینے والے ہیں ان میں کئی جوان بچیوں اور خواتین نے اپنی آبرو کو بچانے کیلئے اپنی جانیں اس پاک وطن پر قربان کر دیں۔ تاکہ وہ ان درندہ صفت سکھوں سے اپنے وجود کو ناپاک ہونے سے بچا سکیں۔آج سے 73 سال قبل پاکستان آنے والی خواتین نے ایک آزاد و انصاف پسند ملک کا خواب دیکھا تھا ۔ اور ان ہماری قابل احترام جان لٹانے والی خواتین بھی اسی یقین کے ساتھ اپنی جانیں دی تھیں کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں ہماری آبروئیں محفوظ رہیں گیں ۔ آج 73 سالوں سے جس طرح ایک غریب و بے بس عورت کو سر عام برہنہ کیا جا تا ہے ۔ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے اس دیس میں ایک عورت کی جس طرح پامالی کی جا رہی ہے اس پر تو آسمان بھی روز پھٹتا ہو گا افسوس ایک غریب عورت کی قسمت نہ بدل سکی اسے اسی کی حفاظت کے دعویدار ہی اس کی آبرو کو رعونت وتکبر اور دولت ، اعلیٰ عہدوں کے نشے میں مدہوش اپنے پیروں تلے روز درند ڈالتے ہیں اس پرتو نہ ہمارا قانون حرکت میں آتا ہے اور نہ ایک غریب و لا چار مظلوم بیٹی کو انصاف دلوانے کیلئے ملک کی عدالتیں24 گھنٹے کھلنے کا اعلان کرتی ہیں ۔ حال ہی میں ایک خبر نے ہماری غیرت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ خانیوال کے نواحی علاقے کے ایک تھانے کے ایس ایچ او نے بس ہوسٹس کو دوستی کرنے سے انکار پر بد سلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔ دوستی سے انکار کرنے والی بس ہوسٹس کا تعلق مخدوم پور سے ہے،جس نے کہا کہ ایس ایچ او تھانہ مخدوم پور دوستی کا خواہشمند تھا اور دوستی کرنے کے لیے میسجز بھیجتا تھا۔
فحش میسجز افشا ہونے کے خوف کے باعث ایس ایچ او نے اس کے گھر پر چھاپا مارا ور موبائل قبضے میں لینے کے بعد والدہ کے سامنے لڑکی کو برہنہ کر کے ناچنے پر مجبور کیا۔ لڑکی سے زبردستی برہنہ ڈانس کی مبینہ ویڈیو بھی بنائی۔ ا سکے بعد ایس ایچ او اور دیگر اہلکاروں نے لڑکی کے گھر والوں کو دھمکیاں بھی دیں۔قبل ازیں پیر محل میں ایک ایسا ہی اندوہناک واقعہ پیش آیا تھا کہ انصاف کے لئے آئی ہوئی خاتون کو نیم برہنہ حالت میں 6 گھنٹے تک تھانے میں بٹھائے رکھا اور کچھ بھی نہ ہو سکا ۔ تھانہ کلچر بدلنے کے دعوے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے ۔ پولیس نظام وہی فرسودہ اور امیر کے گھر کی لونڈی ہی بنا ہوا ہے جس میں غریبوں کے لئے سوائے ذلت ، تحقیر و تذلیل کے سوا کچھ نہیں۔اس میں کسی حد تک شہریوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے۔ جب کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی ہے تو اہل علاقہ گھروں میں دبکے بیٹھے رہتے ہیں۔
ظلم کے مقابلے میں بالکل باہر نہیں نکلتے۔ شہر کے لوگوں، امام مسجد، دینی مدارس، اساتذہ، انسانی حقوق کی تنظیموں کو کردار ادا کرنا چاہئے۔ ہر تیسرے دن کسی نہ کسی شہر سے ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ اثرورسوخ تعلقات، پیسہ یا رشوت ستانی کی وجہ سے پولیس افسران اس طرح کا ظلم کرنے والوں کو کچھ نہیں کہتے۔کسی غریب سے کوئی چھوٹا موٹا جرم سرزد ہوجائے تواسے اتنا بڑھا چڑھاکر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ سزا سے کسی طور بچ نہیںپاتا۔ انہیں فوری گرفتار کرکے پہلے تو تھانے میں خوب تشدد کیا جاتا ہے اور پھر ناکردہ جرم قبول کرواکر کچہری میں پیش کردیا جاتا ہے۔ نتیجتاً عدالت بھی سرسری سماعت کے فوری بعد سزا سناکر غریب کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دینے کا فرمان جاری کردیتی ہے۔ عام طور پرغریب کو معلوم ہی نہیں ہوپاتا کہ اسے کس جرم کی سزا دی جاری ہے۔
دوسری طرف کوئی دولت مندیا اثر ورسوخ والا شخص کوئی جرم کرتا ہے تو اول تو اس پر ہاتھ ہی نہیں ڈالا جاتا کیونکہ پولیس سے لے کر بڑوں بڑوں تک اس کی رسائی ہوتی ہے۔ دولت کو پانی کی طرح بہا کر وہ خود کو محفوظ و مامون رکھتا ہے۔غریب اور متوسط طبقات کے لوگ ہمیشہ مشکلات و مصائب کا شکار رہتے ہیں۔ ہر کام کیلئے انہیں یا تو اپنے اعلیٰ افسران کی خوشامد کرنی پڑتی ہے یا پھر لمبی لمبی قطاروں میں اسی طرح کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظا ر کرنا پڑتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے نصیب میں کوئی سکھ چین نہیں، شاید انہیں زندگی بھر دکھ ہی اٹھانا ہے۔ آخر ہمارے معاشرے میں غریبوں کیلئے ہر چیز اتنی مشکل کیوں ہے ۔ حالانکہ ملک میں اکثریت غریبوں کی ہے جن میں سے بہت سے خط غربت سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ انہیں تو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں، محسوس یوں ہوتا ہے کہ غریبوں کو شہری کہلانے کا حق ہی نہیں کیونکہ تمام تر سہولتیں اور آسانیاں صرف اور صرف دولت مندوں کیلئے ہیں۔ ہم اپنے ملک کو فلاحی ریاست کیوں نہیں بناسکتے ۔عوام کو ظالموں کی پہنچ سے دور رکھنے کی جو بنیادی ذمے داری پولیس کو سونپی گئی تھی اس کا نشان تک نہیں ملتا۔ تھانوں میں بالخصوص اور پولیس کے نظام میں بالعموم کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔
تھانوں میں ملزمان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے پر پابندی لگانے کے مطالبے کی قرارداد پنجاب اسمبلی میں جمع کروائی گئی تھی مگر بے سود۔ قرارداد کے متن میں کہا گیا تھا کہ پنجاب میں دوران حراست ملزمان کی ہلاکتوں کے واقعات میںمسلسل اضافہ ہو رہا ہے ،ایک سال کے دوران پنجاب میں 7شہری پولیس تھانوں میں دوران حراست ہلاک ہو چکے ہیں صوبے کے اندر پولیس نے اپنی نجی ٹارچر سیل بھی بنائے ہیں،نجی ٹارچر سیل میں ملزمان پر بہیمانہ تشدد کیا جاتا ہے.قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ پولیس تھانوں میں ملزمان کو جانوروں کی طرح تشدد کا نشانہ بنانے پر پابندی لگائی جائے ،پولیس تھانوں میں ملزمان سے تفتیش کا طریقہ بھی تبدیل کیا جائے ،ملزمان سے تفتیش متعلقہ پولیس اسٹیشن کے سینئر زافسران کی موجودگی میں کی جائے ،پولیس اسٹیشن میں گالم گلوچ اور تضحیک آمیز انداز میں گفتگو پر مکمل پابندی لگائی جائے ،پنجاب کے تمام پولیس افسران اور اہلکاروں کی تربیتی ورکشاپ منعقد کی جائیں . نئے پاکستان میں بھی پولیس نہ بدل سکی، دوران تفتیش پولیس کی جانب سے ملزمان پر تشدد کیا جاتا ہے جس سے ان کی موت ہو جاتی ہے، آئی جی پنجاب انکوائری کا حکم دیتے ہیں لیکن انکوائری کی رپورٹ نہیں آتی، گزشتہ 3 ماہ کے دوران پولیس حراست میں 5 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
اے ٹی ایم کارڈ چوری کرنے والا صلاح الدین بھی دوران تفتیش جاں بحق ہوا۔آئی جی پنجاب کی جانب سے صوبے کے تمام 722پولیس اسٹیشنز کی حوالات میں چوبیس گھنٹوں کے اندر سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کا حکم دیا گیا تھا اس کے باوجود ملزمان پر تشدد کے واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ پا کستان کا آئین تمام شہریوں کے قانونی طور پر مساوی ہونے کی یقین دہانی کراتا ہے۔لیکن کیا حقیقت میں ملک کا ہر شہری قانون کی نظر میں برابر ہے؟۔