تحریر : راجہ وحید احمد یہ علاقہ ڈیفنس یا بحریہ کی طرح پوش علاقوں میں شمار نہیںہوتا پی آئی بی کالونی کراچی کے متوسط طبقے کا علاقہ ہے میں جس گلی میں داخل ہوا وہ اینٹوں کی بنی ہوئی عام سی گلی تھی اُس طرح کی ہی گلی جس طرح کی میرئے یا آپ کے گھر کی گلیاں ہوتی ہیں میں جس شخصیت سے ملنا چاہتا تھا اُن کے گھر کے باہر اُن کے نام کی تختی لگی ہوئی تھی یہ ایک تین منزلہ چھوٹا سا مکان تھا گھر سے باہرگلی میں ایک ٹیبل پڑی تھی اور دس ٹینٹ سروس والوں کی کرسیاں چھ لوگ مجھ سے پہلے ہی وہا ں پر بیٹھے ہوئے تھے میں نے اُن سے اپنا تعارف کروایا اپنا کارڈ دیا اور بتایا کہ میں آپ کے صاحب سے ملنا چاہتا ہوں اُنھوں نے پوچھا آپ نے ٹائم لیا تھا میں نے کہا جی نہیں میں کراچی آیا تو سُوچا ان سے بھی مل لوں اُن میں سے ایک میر ا کارڈ لے کر گھر کے اندر چلا گیا کچھ دیر بعد وہ واپس آیا تو کہنے لگا آپ کو تھوڑا انتظار کرنا پڑئے گا کیوں کہ صاحب نہا رہے ہے۔
میں نے کہا کوئی بات نہیں اُن لوگوں نے چائے منگوا لی ایک کپ مجھ کو دیا میں نے چائے پینے کے ساتھ اُن سے باتیں شروع کر دی وہ سب کسی نہ کسی گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ملازم تھیں اُن کو بھرتی اُن کے صاحب نے ہی کروایا تھا اُن لوگوں کے خیالات اپنے صاحب کے بارئے میں اچھے تھیں تھوڑی دیر بعد اُن میں سے ایک لڑکے کے موبائل پر کال آئی کال سُننے کے بعد وہ مجھ سے کہنے لگا سر آپ میرئے ساتھ آجائے ایک چھوٹے سے دروازئے سے ہم گھر کے اندر ڈیوری میں داخل ہوئے جس میں بمشکل دو بائیک کھڑی ہو سکتی تھی ہمارئے سامنے سیڑھیاں تھی سیڑھیاں اتنی تنگ کہ اگر اترتے ہوئے آپ کے سامنے دوسرا آدمی آ جائے تو آپ کو کھڑا ہونا پڑئے گاسیڑھیاں چڑھ کر ہم جس کمرئے میں داخل ہوئے وہ اس گھر کا ڈرائنگ روم تھاکالے رنگ کے عام سے پردئے،دو تین سیڑ اور تین دو سیٹر صوفے،چار ڈائینگ ٹیبل کی کرسیاں ، دو شیشے کے ٹیبل اور دوسائیڈ ٹیبل ،سائیڈ ٹیبل پر پھول رکھے ہوئے تھے۔
ایک الماری جس میں رکھی کتابیں بتا رہی تھی کہ صاحب کو پڑھنے کا شوق ہے دیوار پرلٹکتی ہوئی اُس شخصیت کی ایک تصویر یہ کل اثاثہ تھا اس ڈرائینگ روم کا ابھی میں حیرانی میں مبتلا ہی تھا کہ ایک شخص عام سی بلیو کلر کی پینٹ اور سفید شڑٹ پہنے تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے ڈرائنگ روم میں داخل ہو ئے اُنھوں نے مجھ سے ہا تھ ملایا سامنے والے صُوفے پربیٹھتے ہوئے کہا معذرت آپ کو انتظا ر کرنا پڑا یہ شخصیت تھی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے چئیرمین ڈاکٹر فاروق ستار اُن سے ہونے والی ملاقات میں جو باتیں ہوئی وہ پھر کسی کالم میں آپ کے سامنے رکھوں گا لیکن اس ملاقات میں میں نے اُن سے ایک سوال کیا جو میں آپ کو ضرور بتانا چاہوں گا میں نے پوچھا آپ کی نظر میں الطاف حسین کا اب پاکستان کی سیاست میں کوئی مستقبل ہے تو اُنھوں نے کہا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو جب اُن کی ضرورت محسوس ہو گی تو اُن کا سیاست میں مستقبل بھی بن جائے گامیں نے جو اُن کی باتوں سے محسوس کیا کہ وہ بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں اب الطاف حسین کا کوئی کردار نہ ہو اور طاقتور حلقوں کا آشیر باد اُن کو حاصل ہو جائے لیکن اس قیمت پر نہیں کہ ایم کیو ایم کا نام ہی ختم ہو جائے۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے 1979میں آل پاکستان متحدہ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن سے اپنی سیاست کا آغاز کیااٹھائیس سال کی عمر میں1987میں وہ کراچی کے مئیر منتخب ہوئے وہ دو دفعہ ممبر صوبائی اسمبلی رہے وہ صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی ر ہے وہ پانچ دفعہ ممبر قومی اسمبلی بھی رہے اس دوران وہ وفاقی وزیر بھی رہے ہر مشکل وقت میں متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ کھڑئے رہے جیل بھی کاٹی الطاف حسین اور متحدہ قومی موومنٹ کا ہر حالت میں دفاع کیا لیکن 22اگست 2016 کے دن جب الطاف حسین اپنی اوقات سے بالکل ہی باہر ہو گئے اُس دن ڈاکٹر فاروق ستار نے الطاف حسین کو خیر باد کہا اور خود متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت سنبھال لی ڈاکٹر فاروق ستار کو ایک شکوہ یہ بھی ہے کہ طاقتور حلقے اُن کی جماعت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیںاُن کے ورکرز اور ممبران اسمبلی پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ پاک سر زمین پارٹی میں شمولیت اختیار کر لیں اس میں کوئی شک کی گنجائش بھی نہیں کیوں کہ یہ پاکستان کی تاریخ ہے کہ طاقتور حلقے ہمیشہ اپنی مرضی کی حکومت تشکیل دینا چاہتے ہیں ماضی میں اس کی زندہ مثال نو ستارئے (پاکستان قومی اتحاد) ،آئی جے آئی کا قیام، مشرف دور میں متحدہ مجلس عمل کا قیام، پیپلز پارٹی سے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کا جنم لینا، مسلم لیگ (ن) میں فارورڈ بلاک اور ان تمام پرندوں کو ایک جال میں بند کر کے مسلم لیگ (ق) کی تشکیل ڈاکٹر فاروق ستار بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ کی تقسیم کی وجہ سے مہاجروں کا ووٹ بنک بھی تقسیم ہو گا جس کا سب سے بڑا فائدہ پاکستان پیپلز پا ر ٹی کو ہو گا لیکن جماعتوں کو اپنے مفاد کے لیے تقسیم کرنا یا ملانا اسٹیبلشمنٹ کا کا م نہیں آپ ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفی کمال کے بیانات جو دونوں جماعتوں کی طلاق کے بعد میڈیا کی زینت بنیں ملاحظہ کریں تو ساری حقیقت آپ پر عیاں ہو جائے گی کہ پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کیا کردار ہے۔
چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ فرض ہے کہ وہ شفاف انکوائری کروائے کہ یہ کسی فرد واحد کا کھلایا ہوا پھول ہے یا پورئے ریاستی ادارئے کی طرف سے پیش کیا گیا گلدستہ کیوں کہ سیاسی جماعتوں میں اداروں کی طرف سے کی جانے والی مداخلت ملک کے مفاد میں نہیں بلکہ ملک کے لیے نقصان دہ ہے ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفی کمال کے ایک دوسرئے پر لگائے گئے الزامات قابل تحقیق ہیں کیوں کہ دونوں نے ایک دوسرئے کو اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ کہا ہے دونوں مانے ہیں کہ اُن کے درمیان ملاقات کرانے والی شخصیت عسکری ادارئے سے تعلق رکھتی ہے یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اُس شخصیت نے ان کی ملاقات فرد واحد کی حثیت سے کروائی یا ادارئے کی طرف سے نامزد کئے گئے۔
ڈاکٹر فاروق ستار متحدہ قومی موومنٹ کے نئے پیرو مرشد اپنے آپ کو ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں مہاجر کارڈ کو بھی اُنھوں نے بڑی خوبصورتی سے آستعمال کیا اور طاقتور حلقوں کو بھی یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ کی سربراہی کسی صور ت نہیں چھوڑئے گے اور نہ ہی وہ اپنی پینتیس سال کے کشت کو ضائع ہونے دیں گے اور یہ بھی ثابت کرنے میں کامیاب ٹھہرئے کہ متحدہ قومی موومنٹ میں اگر کوئی الطاف حسین کا متبادل ہے تو وہ ڈاکٹر فاروق ستار ہی ہے طاقتور حلقوں کو بھی چائیے کہ وہ تمام سیاستدانوں کو کھل کر سیاست کرنے کا موقع دیں یہ اس ملک اور کراچی کے حالات کے لیے بھی فائدہ مند ہے الیکشن کے قریب آتے ہی ہوا کا رخ بدلنے کی کوششیں جاری ہیںممتاز بھٹو کی جماعت کا پاکستان تحریک انصاف میں ضم ہونا، جمعیت علما اسلام (س) کا پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ وقت سے پہلے اتحاد، پاکستان سرزمین پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کو آپس میں ملانے کی کوشش، مسلم لیگ (ن) میں فارورڈ بلاک بنانے کی کوشش ، متحدہ مجلس عمل کا دوبارہ قیام یہ سب ہوا کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش ہے لیکن اس کا نقصان یہ ہو گا کہ اگلے الیکشن میں تمام کرپٹ اور گند ے انڈئے ایک دفعہ پھر صاف شفاف ہو کر مارکیٹ کی رونق بڑھا رہے ہو گے۔