تحریر : کامران غنی صبا نیا عیسوی سال شروع ہونے میں اب صرف چند گھنٹے ہی رہ گئے ہیں. جہاں ایک طرف سوشل میڈیا پر مبارکباد کا سلسلہ ہے وہیں نئے سال کی مبارکباد پر فتوی بازی کا بازار بھی گرم ہے. کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ عیسوی کیلنڈر کافروں کا کیلنڈر ہے. کئی لوگوں کے میسجز آ رہے ہیں کہ “ہمارا اسلامی سال” محرم کے مہینہ سے شروع ہوتا ہے اس لیے عیسوی سال کے آغاز پر مبارکباد دینا بدعت ہے، گمراہی ہے وغیرہ وغیرہ . شاید اسی لیے جو لوگ جمعہ اور یوم ولادت مصطفی کی مبارکباد دینا بھی بدعت سمجھتے ہیں وہ بھی یکم محرم کو نئے سال کی مبارکباد دینے سے نہیں چوکتے. اب ذرا ان سے کوئی پوچھے کہ بھئی یہ “اسلامی سال” ہوتا کیا ہے؟ محرم، صفر، ربیع الاول یہاں تک کہ رمضان بھی دورِ جاہلیت میں یعنی حضور پاک ﷺ کی بعثت سے قبل اسی نام سے مشہور تھے. پیارے رسول ﷺ ناموں کے معاملہ میں اتنے حساس تھے کہ وہ لوگوں کے غلط نام کو فوراً بدل دیتے تھے.
ایک شخص جس کا نام ’’اصرم‘‘ یعنی ( کاٹنے اور کترنے والا) تھا۔ حضور اکرم ﷺ نے اس سے اس کا نام پوچھا تو اس نے اصرم بتایا، تو آپ نے فرمایا، نہیں تم تو ضراع (کھیتی کرنے والا) ہو، یعنی اس کے نام کو بدل دیا۔ (ابودائود)
دوسری طرف آپ ﷺ نے پہلے سے رائج مہینوں اور دنوں کے نام کو اسی طرح رہنے دیا. پیارے نبی ﷺ کے زمانے میں کوئی نیا کیلنڈر نہیں بنا تھا. حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حساب کتاب رکھنے کے لیے کیلنڈر کی ضرورت محسوس ہوئی. اگر اس زمانہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس موجودہ انگریزی (عیسوی) کیلنڈر پیش ہوتا تو ممکن ہے کہ آپ اسے قبول فرما لیتے جیسا کہ پہلے غزوہ خندق کے موقع پر ایرانیوں کی تکنیک اور رجسٹر حساب کے معاملہ میں مصریوں کے طریقے کو اپنایا گیا تھا.
اب سوال یہ ہے کہ نئے سال کی مبارکباد دینا کافروں کا فعل ہے اور ان کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے تو معلوم ہونا چاہیے کہ کافروں کی نقل کا تعلق عبادات سے ہے یعنی عبادات میں ان کی نقل نہ کی جائے. اب اگر ہر معاملات میں کافروں سے الگ روش اختیار کرنے کی کوشش کی جائے گی تو ہمارا کھانا، پینا، پہننا، اوڑھنا، ٹکنالوجی کا استعمال سب کچھ ناجائز ثابت ہوگا. رہی بات نئے سال پر غیر شرعی اعمال اور خرافات کی تو یہ پابندی صرف ایک دن کے لیے نہیں سال کے ہر دن عائد ہوتی ہے. لہذا غلط فہمیوں یا کم علمی کا شکار ہو کر ذرا ذرا سی بات پر اپنے بھائی کو بددین، بدعتی اور گمراہ کہنا کسی بھی طرح درست نہیں.
مبارکباد کا پیغام بھی دراصل ایک دعا ہے، برکت کی. اس لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ کسی کو برکت کی دعا دینے سے روکا جائے ہاں نئے سال کے جشن کی آڑ میں اگر کہیں شرعی اصولوں کی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو اس کی روک تھام ضروری ہے.