دو ہزارا بیس ختم ہو گیا اوردو ہزار اکیس کی آمد آمد ہے ہم اپنی آنکھوں میں بہتری کے خواب سجائے سال دوہزار اکیس کو خوش آمدید کہتے ہیں۔نیا سال ایک بار پھر نئی امیدیں لیے ہماری زندگیوں میں قدم رکھ رہا ہے۔
سوچنے کی بات یہ نہیں کہ آنے والے نئے سال میں ہم کیا کریں گے بلکہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے گزرنے والے سال میں کیا کھویا اور کیا پایا؟کسی غریب کی مدد کی؟ حقوق العباد کا خیال رکھا؟عبادت میں کوتاہی تو نہیں کی؟کسی کا دل تو نہیں دکھایا؟ماں باپ کی خدمت کی؟
کوئی نیکی کا کام جان بوجھ کر تو نہیں چھوڑا؟بدی کے راستے پر تو نہیں چلے؟کتنے اچھے کام کئے؟وغیرہ۔سال کے اختتام پر ان میں سے بہت سی چیزیں مکمل ہوگئی ہوں گی جب کہ بہت سی اب بھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکی ہوں گی۔ جو چیز کام یابی تک لے گئی وہ بلاشبہ خوشی کا باعث ہے
تاہم اگر کچھ ناخوش گوار ہوا ہے تو اس پر بھی دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ دراصل بہت سی چیزیں ہمارے اختیار سے باہر ہوتی ہیں، ہم سوچتے اور کرتے کچھ ہیں لیکن عملاً اس کے برعکس ہو جاتا ہے، لہٰذا ناکامیوں کا از سر نو جائزہ لے کر آنے والے برس اس کے ازالے کے لیے کمر کس لیجیے۔
نیا سال مستقبل کی خوش آئند امیدوں کے ساتھ ہماری زندگیوں میں قدم رکھ رہا ہے۔ہمیں نہ صرف آنے والے برس کے لیے اچھی اچھی سوچیں سامنے رکھنی چاہیے، بلکہ گزرے ایام کا ایک تنقیدی جائزہ بھی لینا چاہیے کہ کن جگہوں پر ہم سے کوئی غلطی سرزد ہوئی اور کہاں ہم نے کوئی غفلت کی، اگر اپنی اس کارگزاری کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنی آئندہ حکمت عملی بنائیں گے تو یہ یقیناہمارے لیے مفید ثابت ہوگا۔