نیا سال پرانی دعا

New Year

New Year

تحریر : روہیل اکبر
آج ہم نئے سال میں داخل ہو رہے ہیں گذرنے والے ایک سال میں سیاسی ماحول اس حد تک گرم کردیا گیا ہے کہ آج ہم سرد موسم میں بھی سیاسی گرما گرمی کا ماحول دیکھ رہے ہیں نئے سال میں قومی الیکشن بھی ہونے والے ہیں مسلم لیگ ن کی حکومت نے پانچ سال مکمل کرلیے مگر عوام کو ہر روز ایک نئے وعدے سے تولا اور رولا گیا بے روزگاری اس حد تک بڑھ گئی کہ سفید پوش افراد کا جینا مشکل ہوگیالوٹ مار اور کرپشن کی نئی نئی داستانیں کھل کر عوام کے سامنے آئیں محنتی اور محب وطن افراد اپنی ضرورتوں کے لیے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے نظر آئے جبکہ چور بازاری، لوٹ مار،کمیشن مافیا اور لوٹ مار کرنے والے اربوں روپے کے مالک بن گئے جنہوں نے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ممالک میں اپنی جائیدادیں بنا لیں کرپشن کی بناپر پر نکالے گئے وزیراعظم نے عدلیہ اور ملک کے قومی اداروں تحریک چلانا شروع کردی اپنی ہی عدلیہ کو اس قدر تنقید کانشانہ بنایا جانے لگا کہ تحریک عدل چلانے کا اعلان کردیا گیا سال کے آخری روز ملک کے تمام بڑی سیاسی جماعتیں ڈاکٹر طاہرالقادری کی سربراہی میں اکٹھی ہو چکی ہیں آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی اسی روز مریم نواز شریف نے کلثوم نواز کے حلقہ انتخاب میں پارٹی ورکروں سے خطاب کرتے ہوئے عدلیہ اور قومی اداروں کو ایک بار خوب رگڑا لگایا اور بادی النظر کے الفاظ کی اپنے الفاظ میں تشریح بھی کر دی اور انہوں نے ایک بار پھر گلیوں،نالیوں اور نوکریوں کی سیاست شروع کرکے اگلے الیکشن سے پہلے تحریک عدل کے لیے عوام کو تیار کرنا شروع کر دیا ہے۔

ایک طرف حکومت کرنے والی جماعت پاکستان کے قومی اداروں کے خلاف تحریک شروع کرنا چاہتی ہے تو دوسری طرف تمام حکومت مخالف جماعتیں میاں نواز شریف کے خلاف متحد ہوچکی ہیں میاں نواز شریف ،میاں شہباز شریف اور انکے تمام کار خاص سعودی عرب میں اکٹھے ہو چکے ہیں ملک کا سیاسی درجہ حرات اس وقت اپنے عروج پر ہے حکومت والے اپنی حکومت بچانے کے چکر میں ہیں مخالفین انہیں چاروں شانے چت گرانا چاہتے ہیں اور درمیان میں عوام ہے جو چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہی ہے موجودہ ملک حالات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے 1947ء والا کیلنڈر ایک بار پھر لوٹ آیا ہے اور تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے قوموں کی تاریخ تبدیل کرنے میں ہمیشہ قیادت کا کردار رہا ہے ہندوستان سے ہجرت کرکے اپنا مال واسباب لٹانے اور اپنے عزیزوں کی قربانی دے کر پاکستان آنے والے کروڑوں افرادکو مثبت قیادت نہیں مل سکی جس کی وجہ سے آج ہر محب وطن پاکستانی خود اپنے آپ کو تیسرے درجے کا شہری سمجھ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

سفارش اور رشوت کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ایک عام پاکستانی کو ملازمت سے لے کر تعلیم تک اور دیگر بنیادی حقوق سے محروم کردیا ہے آج جو ہم میں احساس محرومی پایا جارہا ہے وہ ایک دو دنوں کی بات نہیں ہے اور نہ ہی ایک دو سالوں میں پیدا ہوا ہے قائد ا عظم کی وفات کے بعد پاکستان پر حکومت کرنے والوں نے ملکی مفاد کی بجائے اپنا اور اپنے حواریوں کا مفاد زیادہ عزیز رکھا اپنا سب کچھ قربان کرنے کے بعد جب لوگ پاکستان پہنچے تو انکے حق پر ڈاکہ ڈالنے والوں نے انہیں اس طریقے سے الجھایا کہ اکثریت کو انکا حق ہی نہ ملا اور جو وہاں انگریزوں کے غلام اور انکے مفادات کے محافظ تھے انہوں نے پاکستان پہنچ کربھی انگریزوں سے وفاداری نبھائی اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنیکی بجائے تنزلی کی طرف رواں دواں کردیا سفارش اور رشوت کا ایسا پودا پروان چڑھایا جو اب تناور درخت بن چکا ہے اور اسکی جڑین اتنی مضبوط ہو چکی ہیں کہ اب اسکو ختم کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔

حالات سے تنگ آئے لوگ اجتماعی خودکشیاں کررہے ہیں اور مائیں اپنے بچوں سمیت نہروں میں ڈوب رہی ہیں ہسپتال ہیں کہ جہاں مریض ٹرپ رہا ہے اور مسیحا کوئی نہیں ادویات کی قیمتیں کمشن مافیا ایجنٹوں نے آسمان تک پہنچا دی ہیں روزگار کے دروازے غریب انسان پر بند ہو چکے ہیں افسران ہیں کہ اپنے سے اوپر والوں کی خوش آمد میں لگے ہوئے ہیں سیاستدان نے اپنے بچے اور اپنے اثاثے بیرون ملک منتقل کرلیے اور سیاسی جماعتوں پر خاندانوں کی اجارہ داریاں قائم ہو چکی ہے دہشت گردی کی وباء نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور سیاسی جماعتوں کے سیاسی ماحول نے پورے ملک کو داؤ پر لگا رکھا ہے عوام کے نام پر سیاست کرنے والوں نے عوام کو ہی مذاق بنا کر انہیں فٹ بال بنا دیا ہے کبھی ایک ریلی نکلتی ہے تو کبھی دوسری ریلی نکالی جاتی ہے اور یہ بازیگر نما سیاستدان عوام کے جذبات سے خوب کھیل رہے ہیں ایوان اقتدار میں بیٹھے افراد بھی اپنے ہاتھوں میں ڈگڈی پکڑے اپنا پنا تماشا لگائے بیٹھے ہیں جب مطلب ہوا تو گدھے کو بھی باپ تسلیم کرکے مطلب نکال لیتے ہیں اور جب کسی سے مطلب ختم ہو جائے تو پھر سابق آرمی چیف جسے گارڈ آف آنر کے ساتھ رخصت کیا گیا ہو اسے دودھ پینے والا بلا بنا دیا جاتا ہے گرمیوں میں ٹھنڈک کے اور سردیوں میں گرم ماحول کے مزے لینے والوں نے ایسی ایسی سیاسی دوکانداری سجا رکھی ہے کہ ایک ڈرامہ ختم ہوتا ہے تو دوسرے کے لیے اسٹیج تیار کرلیا جاتا ہے۔

عوام کو انہی چکروں میں الجھا کر بیوقوف بنایا جارہا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ جو کھیل قائد اعظم کی وفات کے بعد کھیلا گیا تھا اسکا اب اختتام عنقریب ہونے جا رہا ہے یا تو ملک میں چوروں ،ڈاکوؤں اور لٹیروں کا صفایا ہوجائیگا ایسی جونکیں آگ میں جھونک دی جائیں گی جنہوں نے قیام پاکستان سے لیکر 2017کے آخری سورج غروب ہونے تک عوام کی گردنوں پر اپنے دانت گاڑ رکھے تھے اور خون کا ایک ایک قطرہ چوس لیا گیا یا پھر ملک سے ایمانداری ،خلوص اور حب الوطنی کا جنازہ نکل جائے گا ہر طرف اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے لوٹ مار کا ایک نہ رکنے والا ایسا سلسلہ شروع ہوجائیگا جس میں کرپشن،کمیشن اور لوٹ مار ہمارا فخر بن جائیگا جو زیادہ بڑا ہاتھ مارے گا وہی ہمارا سیاستدان اور حکمران بن جائیگا باقی کے چھوٹے چھوٹے چور اور ڈاکو اسکے حواری ہونگے ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں ایسے حکمرانوں اور انکے حواریوں سے محفوظ رکھے پاکستان کو نیک ،مخلص اور ایماندار قیادت فراہم فرمائے اور چوروں اور ڈاکوؤں کا احتساب اور لوٹی ہوئی ملکی دولت واپس لانے والے جرات مند حکمران عطا فرمائے تاکہ ہم بھی اپنے بچوں کے ساتھ ایک خوشحال زندگی کا آغاز کرسکیں یہی ہر محب وطن کی نئے سال پر ایک پرانی دعا ہے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر
03004821200)