نئے عیسوی سال 2021ء کا آغاز ہوا تو میں یہ سوچ رہا تھا کہ نئے سال کا پہلا کالم کسی خوشی کے مو ضوع پر تحریر کروں گا لیکن راولپنڈی شہر میں ہو نے والے افسوسناک واقعہ نے بے حد افسردہ اور غمزدہ کر دیا ۔خوبرو اور جواں سال اسامہ ستی کی تصویر آنکھوں کے سامنے ٹھہر گئی۔
بقول شاعر تُو گھر کر گیا ہے آنکھوں میں کیسے دیکھیںکوئی د وسرا چہرہ
اولاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء کردہ کسی بھی انسان کے لیے بہت بڑی نعمت ہو تی ہے ۔ بیٹیاں ہو ں یا بیٹے والدین کا کل اثاثہ اور ان کے لیے سرمایہ حیات ہو تے ہیں ۔ اسامہ ستی کا تعلق ایک متوسط اور انتہائی غریب گھرانے سے تھا ۔ وہ اس یقین کے ساتھ حالات کی چیرہ دستیوں ،محرومیوں اور غربت و افلاس کے خلاف نبرد آزما تھا کہ بالآخراس جنگ میں ایک دن وہ فاتح ٹھہرے گا ۔ وہ سوچتا تھا کہ وہ محرو میوں کو شکستِ فاش دے گا اور ایک وقت آئے گاجب اس کے سامنے کھڑی غربت کی آہنی دیواریںمٹی کا ڈھیر ثابت ہو ں گی ۔یہ اسامہ کے خواب تھے ۔وہ اپنے ضعیف والدین اور چھوٹی بہنوں کا سہارا تھا مگر وہ خود اور اس کے والدین اس بات سے لاعلم تھے کہ ہمارے سماج کی روایات بہت سفاک ہیں اور یہاں کسی کمزور کا کسی طاقتور کے سامنے اونچی آواز میں محض بات کرنا بھی بسا اوقات ناقابل معافی اور لائق ِ تعزیر جرم تصور کیا جاتا ہے ۔ اسامہ ستی سے بھی شاید یہی غلطی سر زد ہو ئی اور وہ اس کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
حسرت ویاس اور غم کا عکس بنے اسامہ کے والدین کی حالتِ زار اور بے بسی پر تمام محبِ وطن افراد دل گرفتہ اورافسردہ ہیں ۔ابھی یہ زخم تازہ تھا کہ بلوچستان کے علاقہ مچھ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے نہتے مزدوروں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم نے اس کرب اور اذیت کواور بڑھا دیا ۔یہ ہمارا اجتماعی رویہ اور المیہ ہے کہ ہم لہو رِستے زخموں اور دردناک دکھوں کو اس طرح فراموش کر دیتے ہیں کہ گویا ان سے کوئی سبق تک سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ ساتھ یہ بھی سوچتے ہیں کہ سب کچھ خود بخودٹھیک ہو جائے گا جو یقینا ایک ناقابل ِ فہم عمل ہے۔یہ سوال ہرذی شعور پاکستانی کے ذہن میں گرد ش کر تا رہتا ہے کہ آخر کونسی ایسی وجوہات ہو تی ہیں جو ہمیں پیچیدہ معاملات اور حل طلب مسائل کی الجھی ہو ئی گتھیوں کو مستقل طور پر سلجھانے سے گریزاں رکھتی ہیں ۔
ہزارہ برادری کے ساتھ پیش آنے والا یہ کو ئی پہلا دل خراش واقعہ نہیں ۔ ایک طویل عرصہ سے اس برادری کے لوگ زیر عتاب ہیں لیکن ہر بار ہی ہم مگر مچھ کے آنسو بہا کر یہ تصور کر لیتے ہیں کہ ہم نے فر ض پورا کر دیا اور پھر سکھ ،چین کی نیند سوجاتے ہیں ۔ اس ضمن میں اب جب کہ وقت کا تقاضا یہ ہے اس طر ح کے مسائل کا مستقلاََ حل تلاش کرنا نہایت ضروری امر ہے خاص کر ایسے واقعات کہ جن کے رو نما ہو نے سے فرقہ ورایت کے فروغ پانے یا ملک میں خدا نخواستہ بڑے پیمانے پر مذہبی تصاددم کے امکانات و خطرات بڑھنے کا اندیشہ ہو ۔
دنیا بھر کے مختلف ممالک میں مختلف مکاتب فکر کے لوگ آباد ہیں۔کر ئہ ِ ارض پر کوئی ایسا ملک یا خطہ موجود نہیں کہ جس میں صرف ایک عقیدہ یا مذہب رکھنے والے لو گ مقیم ہوں ۔ یہ بھی دنیا بھر میں ہوتا ہے کے وقتاََ فوقتاََ رنگ و نسل اور مذہب و مسلک کے حوالے سے فسادات پھوٹ پڑتے ہیں۔ بدامنی اور قتل و غارت گری کے واقعات بھی ہو جاتے ہیں تو ایسے سانحات کے تدارک کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی اور سنجیدہ طرز عمل اختیار کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جب کہ ہمارے یہاں اکثر دیکھنے میں آتاہے کہ ایسے واقعات کے رونماہو جانے کے بعد جب حکومتوں پر اس حوالے سے تنقید اور پریشر بڑھتا ہے توحکومتی زعماء اور وذمہ داران ماضی کے واقعات کا حوالہ دے کر اپنا دفاع کرنے میں عافیت خیال کرتے ہیں ۔
مختلف وزراء یہ کہتے ہو ئے سنائی اور دکھائی دیتے ہیں کہ فلاں جماعت کی جب حکومت تھی تو تب بھی اس طرح کے واقعات روپذیر ہو ئے تھے اور یہ کو ئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا ۔ مذکورہ افسوس ناک واقعہ کے بعد متائثرہ خاندانوں کی طرف سے کوئٹہ میں احتجاجی دھرنے دیئے گئے مقتولین کے ورثاء نے میتیں دفانے سے بھی انکار کیا۔ کئی روز تک حکومت کے ساتھ جاری رہنے والے مذاکرات کی کامیابی کے بعد احتجاجی دھرنے ختم کر دیے گئے جس کے بعد وزیر اعظم کوئٹہ پہنچے اور انھوں نے متاثرہ خاندانوں کے لواحقین اور مقتولین کے اہلِ خانہ سے بالمشافہ ملاقات کی۔
یقینا یہ ایک سنجیدہ حکومتی رویہ اور اچھا طر ز عمل ہے۔ وہاں جاکر وزیر اعظم عمران خان نے ہزارہ برادری کے نمائندہ افراد کو یہ یقین دہانی کرائی کہ موجودہ حکومت دکھ کی اس گھڑی میں ہزارہ برادری کے ساتھ کھڑی ہے اور آئندہ ایسے واقعات کے سد باب کے لیے بہتر سے بہتر منصوبہ بندی کر رہی ہے ۔ خدا کرے کہ یہ یقین دہانیاں عملی طور پر نظر آئیں اور اس حوالے سے کیے جانے والے اعلانات اور دعوے سچ ثابت ہوں ۔ انہی سطور کی وساطت سے وزیر اعظم عمران خان کی خدمت میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ وزیر اعظم بننے سے قبل وہ پولیس میں اصلاحات کا ذکر اور تھا نہ کلچر کی تبدیلی پر بہت زور دیتے تھے ۔
سانحہ ساہیوال او رسانحہ راولپنڈی کے بعد عوام کے اندر یہ خواہش اور مطالبہ بہت زور پکڑ رہا ہے کہ موجودہ حکومت کی طرف سے ہر صورت پولیس میں اصلاحات کا عمل تیزی سے لایا جانا ضروری ہے۔امید کی جانی چاہئے کہ موجودہ حکومت اس حوالے سے بھی جلد اہم اقدامات عمل میں لائے گی۔