تحریر : علی عبداللہ نئے سال کے آغاز پر امریکی صدر کی جانب سے کی جانے والی ٹویٹ میں 33 بلین ڈالرز کی امداد کا ذکر اور بدلے میں پاکستان کی جانب سے تعاون نہ کرنے کے الزام پر سیاسی و عسکری سطح پر کافی مضبوط ردعمل دیکھنے میں آیا۔ اس ٹویٹ پر پاک امریکہ تعلقات کی ایک نئی بحث کا آغاز ہوا جو کہ اب تک جاری ہے۔ پاکستان ایک لمبے عرصے سے دہشتگردی کے خلاف حالت جنگ میں ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ اوراسکے اتحادیوں کی جانب سے ایسے بیانات پاکستان کی تمام قربانیوں اور نقصانات کو فراموش کر دینے کے مترادف ہیں ۔ 9 /11 کے واقعے کے بعد سے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جھونکا گیا اور پھر آئے روز وطن عزیز دہشت گردی کے گرداب میں پھنستا ہی چلا گیا ۔ آج جبکہ پاکستان بے شمار قربانیوں اور ناقابل تلافی نقصانات کے باوجود بین الاقوامی سطح خصوصاً امریکہ کی جانب سے نظر انداز کیا جاتا ہے تو یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ اب امریکہ پاکستان میں دلچسپی نہیں رکھتا اور خطہ میں موجود دیگر پاکستان مخالف قوتوں کو مضبوط کرنا چاہتا ہے ۔
پاکستان دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں اب تک 50000 عام شہری گنوا چکا ہے ۔ گلوبل ٹیررزم انڈیکس کے مطابق دہشت گردی کا شکار ہونے والے ممالک میں پاکستان کا دوسرا نمبر ہے ۔ واٹسن انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق اس جنگ میں اب تک تقریباً 6000 سیکورٹی اہلکار بھی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں لیکن دوسری جانب امریکہ کے 2357 فوجی مارے گئے ہیں ۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں 2017 میں 924 عام لوگ مارے گئے جبکہ 2016 میں مارے جانے والوں کی تعداد 1830 تھی ۔ اسی طرح سال 2015 میں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والوں کی تعداد 3682 اور 2014 میں ان کی تعداد 5496 تھی ۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف حالت جنگ میں ہے اور اسے ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش جاری ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ اور اسکے اتحادی مختلف بہانوں سے پاکستان کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔
صرف امریکہ ہی نہیں اسرائیل بھی اپنی ازلی دشمنی میں پیچھے نہیں ہے ۔ ایک اسرائیلی اخبار نے پاکستان کو ایک ناکام ریاست کہا ہے ۔ اس کے مطابق پاکستان کے پاس 193 ملین کی آبادی اور ایٹمی ہتھیاروں کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ امریکہ کا پاکستان کو اپنا اتحادی سمجھنے کی بنیادی وجہ جنوب مغربی ایشیا میں روس کے عزائم کے خلاف پاکستانی جرنیلوں اور بیوروکریٹس کی امریکہ کو سپورٹ تھی ۔ جب روس افغانستان میں داخل ہوا تو پاکستان امریکہ کا قریبی ساتھی شمار ہوا کیونکہ یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ جغرافیائی لحاظ سے پاکستان دنیا کی اہم ترین سٹریٹیجک پوزیشنز میں سے ایک پر موجود ہے ۔ اس ایک وجہ کے علاوہ پاکستان مغرب کا کبھی مستقل اتحادی نہیں بن سکا ۔
پاکستان کا بین الاقوامی قوتوں کے ساتھ تعلقات کی صرف ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے ۔ اسرائیلی اخبار کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان 1998 سے ایٹمی طاقت ہے اور اب یہ چار نیوکلئیر ریکٹرز کی مدد سے سالانہ 20 ایٹمی وار ہیڈز تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ روس اور امریکہ کے بعد پاکستان دنیا کی تیسری بڑی ایٹمی قوت بھی بن سکتا ہے ۔ لیکن امریکہ اور مغرب کو خطرہ ہے کہ پاکستان اپنی ٹیکنالوجی دیگر ممالک کو فراہم کر سکتا ہے جن میں ایران اور شمالی کوریا سر فہرست ہیں ۔
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس اخبار نے یہ دعوٰی بھی کیا ہے کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی نے ہی روس اور ہندوستان مخالف اسلامی جہادی گروپس کو سپورٹ کیا اور یہ تمام دہشت گرد گروپ کبھی مضبوط نہ ہو پاتے اگر پاکستان انہیں پناہ گاہیں اور امداد فراہم نہ کرتا تو ۔ اسی طرح رمزی یوسف، خالد شیخ اور بن لادن سمیت کئی دہشت گردوں کو پاکستان میں ہی پناہ دی گئی ۔ 2011 کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کو کھل کر سپورٹ کیا ہے اور افغانستان میں امریکی دستوں پر حملہ آوروں کو محفوظ پناہ گاہیں بھی فراہم کیں ہیں ۔ لہٰذا امریکہ کے لیے بہتر ہے کہ وہ پاکستان کو کسی قسم کی امداد فراہم نہ کرے جبکہ پاکستان امریکہ کا اتحادی بننے کے قابل نہیں ہے ۔
آخر کب تک ہم دوسروں کی خاطر اپنا نشیمن جلاتے رہیں گے ؟اب وقت آ چکا ہے کہ وطن عزیز کی سلامتی اور قومی مفاد کو سر فہرست رکھتے ہوئی قومی قیادت کو مضبوط فارن پالیسی تیار کرنی چاہیے ۔ پاکستان کو اب کسی بھی ملک کی جانب سے دی جانے والی دھمکی پر کان نہیں دھرنا چاہیے بلکہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو مؤثر طریقے سے باور کروایا جائے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دی گئی قربانیوں کا اعتراف نہ کرنے والوں کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ یہی وقت ہے جب ہمیں دنیا کو بتانا ہو گا کہ ہم کئی ناقابل تلافی نقصانات اٹھا چکے ہیں اور اب ڈو مور کا جواب نو مور ہی ہو گا ۔ قربانیوں کو رائگاں بنا کر مزید امداد ڈو مور سے مشروط کرنا ہمارے لیے نا قابل قبول ہے ۔ دشمن قوتوں کی آنکھ میں پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا کھٹکتا ہے اس لیے اگر اب پاکستان مضبوط و مؤثر جواب نہیں دیتا تو پھر ممکن ہے کہ امریکہ اور اسکے حواری خطے میں پاکستان مخالف ممالک سے مراسم مزید بڑھا کر افغانستان کے ذریعے پاکستان کو مزید مشکلات سے دوچار کر دیں۔