یہ دنیا کس طرح دوڑ رہی ہے کہ مہینے دنوں کی طرح اور دن گھنٹوں کی طرح گزر رہے ہیں۔ ہمیں احساس بھی نہیں ہورہا اور ہماری زندگی کے ایام کم ہوتے جارہے ہیں اور ہم برابر اپنی موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ ہم اپنی دنیاوی زندگی میں ایسے مصروف اور منہمک ہیں کہ لگتا ہے کہ ہم اسی دنیا میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ حالانکہ عقلمند اور نیک بخت وہ ہے جو دنوں کی تیزی سے جانے اور سال و موسم کے بدلنے کو اپنے لئے عبرت بنائے، وقت کی قدر وقیمت سمجھے کہ وقت صرف اس کی وہ عمر ہے جو اس کے ہر سانس پر کم ہورہی ہے اور اچھے اعمال کی طرف راغب ہوکر اپنے مولا کو راضی کرنے کی کوشش کرے۔ وقت کا تیزی کے ساتھ گزرنا قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے جیساکہ حضور اکرم ۖنے ارشاد فرمایا کہ قیامت اْس وقت تک قائم نہیں ہوگی، جب تک زمانہ آپس میں بہت قریب نہ ہوجائے(یعنی شب وروز کی گردش بہت تیز نہ ہوجائے) چنانچہ سال مہینے کے برابر، مہینہ ہفتہ کے برابر، ہفتہ دنوں کے برابر اور دن گھنٹے کے برابر ہوجائے گا۔ اور گھنٹے کا دورانیہ بس اتنا رہ جائے گا جتنی دیر میں آگ کا شعلہ یکدم بھڑک کر بجھ جاتا ہے۔ مسند احمد، ترمذی ۔اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کے لئے موت کا وقت اور جگہ متعین کر دی ہے اور موت ایسی شی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی شخص خواہ وہ کافر یا فاجر حتی کہ دہریہ ہی کیوں نہ ہو، موت کو یقینی مانتا ہے۔ اور اگر کوئی موت پر شک وشبہ بھی کرے تو اسے بے وقوفوں کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ بڑی بڑی مادی طاقتیں اور مشرق سے مغرب تک قائم ساری حکومتیں موت کے سامنے عاجز وبے بس ہوجاتی ہیں۔ ہر شخص کا مرنا یقینی ہے لیکن موت کا وقت اور جگہ سوائے اللہ کی ذات کے کسی بشر کو معلوم نہیں۔ چنانچہ بعض بچپن میں، بعض عنفوان شباب میں اور بعض ادھیڑ عمر میں، جبکہ باقی بڑھاپے میں داعی اجل کو لبیک کہہ جاتے ہیں۔ بعض صحت مند تندرست نوجوان سواری پر سوار ہوتے ہیں لیکن انہیں نہیں معلوم کہ وہ موت کی سواری پر سوار ہوچکے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس حقیقت کو بار بار ذکرفرمایا ہے: تم جہاں بھی ہوگے(ایک نہ ایک دن) موت تمہیں جا پکڑے گی، چاہے تم مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ رہ رہے ہو۔ علماء کرام وداعیان اسلام وعظ ونصیحت کرتے ہیں تاکہ ہم دنیاوی زندگی کی حقیقت کو سمجھ کر وقتاً فوقتاً اپنی زندگی کا محاسبہ کرتے رہیں اور زندگی کے گزرے ہوئے ایام میں اعمال کی تلافی زندگی کے باقی ماندہ ایام میں کرسکیں۔ لہٰذا ہم نئے سال کی آمد پر عزم مصمم کریں کہ زندگی کے جتنے ایام باقی بچے ہیں ان شاء اللہ اپنے رب کو راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔حضور اکرمۖ نے ارشاد فرمایا: پانچ امور سے قبل پانچ امور سے فائدہ اٹھایا جائے۔ بڑھاپہ آنے سے قبل جوانی سے۔ مرنے سے قبل زندگی سے۔ کام آنے سے قبل خالی وقت سے۔ غربت آنے سے قبل مال سے۔ بیماری سے قبل صحت سے۔
اسی طرح حضور اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن کسی انسان کا قدم اللہ تعالیٰ کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتا یہاں تک کہ وہ مذکورہ سوالات کا جواب دیدے: زندگی کہاں گزاری؟ جوانی کہاں لگائی؟ مال کہاں سے کمایا؟ یعنی حصولِ مال کے اسباب حلال تھے یا حرام۔ مال کہاں خرچ کیا؟ یعنی مال سے متعلق اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کئے یا نہیں۔ علم پر کتنا عمل کیا؟ ۔ہمیں سال کے اختتام پر یہ محاسبہ کرنا چاہئے کہ ہمارے نامہ اعمال میں کتنی نیکیاں اور کتنی برائیاں لکھی گئیں۔
کیا ہم نے امسال اپنے نامہ اعمال میں ایسے نیک اعمال درج کرائے کہ کل قیامت کے دن ان کو دیکھ کر ہم خوش ہوں اور جو ہمارے لئے دنیا وآخرت میں نفع بخش بنیں؟ یا ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ایسے اعمال ہمارے نامہ اعمال میں درج ہوگئے جو ہماری دنیا وآخرت کی ناکامی کا ذریعہ بنیں گے؟ ۔جس طرح مختلف ممالک، کمپنیاں اور انجمنیں سال کے اختتام پر اپنے دفتروں میں حساب لگاتے ہیں کہ کتنا نقصان ہوا یا فائدہ؟ اور پھر فائدے یا نقصان کے اسباب پر غور وخوض کرتے ہیں۔
نیز خسارہ کے اسباب سے بچنے اور فائدہ کے اسباب کو زیادہ سے زیادہ اختیار کرنے کی پلاننگ کرتے ہیں۔ اسی طرح سال کے اختتام پر نیز وقتاً فوقتاً اپنی ذات کا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے کہ کس طرح ہم دونوں جہاں میں کامیابی وکامرانی حاصل کرنے والے بنیں؟ کس طرح ہمارا اور ہماری اولاد کا خاتمہ ایمان پر ہو؟ کس طرح ہماری اخروی زندگی کی پہلی منزل یعنی قبر جنت کا باغیچہ بنے؟ آخرت کی کامیابی وکامریانی ہی اصل نفع ہے جس کے لئے ہمیں ہرسال، ہر ماہ، ہر ہفتہ بلکہ ہر روز اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔
نئے سال کی مناسبت سے دنیا میں مختلف مقامات پر HAPPY NEW YEAR کے نام سے متعدد پروگرام کئے جاتے ہیں اور ان میں بے تحاشہ رقم خرچ کی جاتی ہے، حالانکہ اس رقم سے لوگوں کی فلاح وبہبود کے بڑے بڑے کام کئے جاسکتے ہیں، انسانی حقوق کی ٹھیکیدار بننے والی دنیا کی مختلف تنظیمیں بھی اس موقع پر چشم پوشی سے کام لیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ برما، شام، عراق اور فلسطین میں مظلوم مسلمانوں کی مدد فرمائے، اللہ تعالیٰ ہم سب کی زندگیوں میں خوشیاں لائے۔ اللہ تعالیٰ 2022ء کو اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کا سال بنادے۔ نیز سال گزرنے پر زندگی کے محاسبہ کا پیغام بھی دیا جاسکتا ہے۔
ہم اس موقع پر آئندہ اچھے کام کرنے کے عہد کرنے کا پیغام بھی ارسال کرسکتے ہیں۔ ۔ حضور اکرم ۖ کے زمانہ میں بھی مختلف کیلنڈر رائج تھے، اور ظاہر ہے کہ ہر کیلنڈر کے اعتبار سے سال کی ابتداء بھی ہوتی تھی۔ ہجری کیلنڈر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں شروع کیا گیا ہے، اور چاند کے نظام سے چلنے والے ہجری کیلنڈر کے سال کی ابتداء محرم الحرام سے شروع کی گئی۔نئے سال کی تقریبات پر بے تحاشہ رقم کے خرچ سے ہونے والی تقریبات میں شرکت سے بچ کر اپنے مولا کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔
سردی کے موسم میں دیگر اعمال صالحہ کے ساتھ ان دو اعمال کا خاص اہتمام کریں۔ ایک حسب توفیق نماز تہجد کی ادائیگی اور دوسرے ضرورت مندوں کی مدد کرنا تاکہ غرباء ومساکین ویتیم وبیوائیں وضرورت مند حضرات رات کے ان لمحات میں چین وسکون کی نیند سوسکیں جب پوری دنیا خرافات میں اربوں وکھربوں روپئے بلاوجہ خرچ کررہی ہو۔ نیز پوری انسانیت کو یہ پیغام دیا جائے کہ غرباء ومساکین ویتیم وبیوائیں وضرورت مند کا جتنا خیال اسلام میں رکھا گیا ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی، اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے ہی دنیامیں غربت کو ختم کیا جاسکتا ہے جو ہمیشہ فضول خرچی کی مذمت اور انسانوں کی مدد کی ترغیب دیتا ہے۔ یاد رکھیں کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے ہی دنیا سے سرمایہ داروں کی اجارہ داری ختم کی جا سکتی ہے۔