واشنگٹن (جیوڈیسک) بیس جولائی کو نیو یارک پولیس سارجنٹ حمید ارمانی کو ایسی صورت حال کا سامنا تھا جس میں وہ بھگوڑا یا پھر ہیرو بن سکتا تھا۔ افغان تارکینِ وطن نے ہیرو بننا پسند کیا۔
ارمانی اُسے ایک خوبصورت رات قرار دیتے ہیں۔ نیو یارک سٹی کے ٹائمز اسکوائر میں ’’ہزاروں کی تعداد میں‘‘ لوگ جمع تھے۔
رات کے تقریباً 11.30 بجے تھے، اور ارمانی اور اُن کے ساتھی افسر، پیٹر سائبلسکی دور کھڑے پارک کی ہوئی پولیس گاڑی سے صورت حال کی نگرانی کر رہے تھے، کہ اچانک ایک شخص اسپورٹس کی ایک گاڑی سے نمودار ہوا اور کھڑکی میں سے پولیس گاڑی کے اندر ایک ’’ڈوائس‘‘ پھینک کر چلتا بنا، جو گاڑی کے ڈیش بورڈ پر جا گرا۔
ارمانی نے بتایا کہ ’’میں نے سائبلسکی اور ’ڈوائس‘ کی جانب نظر دوڑائی۔ وین کی لائٹیں جلنا بجھنا شروع ہوگئیں، اور شور مچنے لگا‘‘۔
بقول اُن کے ’’سائبلسکی نے کہا کہ ’باس یہ بم ہے‘۔ میں نے نظر ڈالی۔ پلک جھپکتے میں دو بچے ہماری گاڑی کے سامنے سے گزرے، اور اپنی دائیں جانب نظر ڈالی۔ پورا علاقہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا’’۔
ارمانی نے فیصلہ کیا کہ اس آلے کو اٹھا کر اِسے مجمعے سے جتنا دور ہو سکے، لے جاؤں۔ اُنھوں نے بتایا کہ اُن کے اِس فیصلے میں سائبلسکی اُن کے ساتھ تھا۔
ایسے میں جب ارمانی گاڑی کو ’سکستھ اوینیو‘ پر خالی مقام کی جانب چلا کر لے جا رہے تھے، سائبلسکی نے آلے کو تھامے رکھا۔ پھر اُنھوں نے ڈوائس کو زمین پر رکھا اور بم اسکواڈ کو فون کیا۔
بعدازاں، ماہرین نے طے کیا کہ یہ ایک مذاق تھا۔ لیکن، پولیس اہل کاروں کا کارنامہ فی لاواقعہ جراٴت مندانہ تھا۔
اُن دِنوں، بِل بریٹن نیو یارک سٹی پولیس کمشنر تھے، اُنھوں نے کہا کہ ’این وائی پی ڈی‘ کے یہ دونوں اہل کار’’ ہیرو تھے، جو نیو یارک سٹی کے ہیروز ہیں۔‘‘
بریٹن کے بقول، ’’اُنھوں نے اپنی جانیں خطرے میں ڈالیں تاکہ ٹائمز اسکوائر میں جمع اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں لوگوں کی جان بچ سکے‘‘۔
ارمانی سنہ 2000میں ترک وطن کرکے امریکہ آئے۔ اُنھوں نے سنہ 2006 میں نیو یارک پولیس ڈپارٹمنمٹ (این آئی پی ڈی) میں شمولیت اختیار کی۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’میں افغانستان میں پلا بڑھا، میں نے بہت سی بے انصافیاں دیکھی ہیں۔ میرا ہدف اور جذبہ یہ تھا کہ ایک دِن میں قانون کے نفاذ سے متعلق اہل کار بنوں گا اور اچھے کام انجام دوں گا‘‘۔
امریکہ کے مختلف حصوں میں قانون کے نفاذ سے وابستہ اہل کاروں پر حالیہ دِنوں ہونے والے حملوں کے پسِ منظر میں، ارمانی نے کہا کہ اُن کی 12 برس کی بیٹی کو تحفظ کے بارے میں فکر لاحق رہتی ہے۔
ارمانی نے مزید کہا کہ ’’اُسی ہفتے، میری بیٹی نے پولیس اہل کاروں کی ہلاکت کے بارے میں ٹیلی ویژن پر خبریں سنی تھیں جس پر میں نے اُن سے وعدہ کیا کہ میں آئندہ جلدی گھر لوٹا کروں گا‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’اُس رات جب میں ’ڈوائس‘ کے ساتھ گاڑی چلا رہا تھا، ایسا لگتا تھا کہ جیسے میں اپنی بیٹی کے ساتھ کیے گئے عہد کی خلاف ورزی کر رہا ہوں۔ لیکن، مجھے یقین تھا کہ اگر مجھے کچھ ہوتا ہے تو میرے بارے میں اُسے ضرور فخر کا إحساس ہوگا‘‘۔